احسان کریں تو تم بھی احسان کرو اور وہ تمہارے ساتھ برائی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔5
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج یہ اصول جوفلاحِ دارین کے اسباب تھے ہماری نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں اور ہم دوسروں کے دروازوں پر اصول ترقی کی دَریُوزہ گری کرتے پھرتے ہیں۔ جو قومیں بداخلاقی اور بد کرداری کامجسمہ سمجھی جاتی تھیں آج وہ اصولِ محمد یہ کو اپنا رہی ہیں اور امت محمد یہ ان اصولوں کو ٹھکرار ہی ہے ؎
ایک ہم ہیں کہ بگاڑ بیٹھے اپنی تصویر
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
کس قدر غفلت کی چیز ہے کہ بہت سے وہ حضرات جو پرہیز گار سمجھے جاتے ہیں اور جو اپنے گمان میں دین داری میں اپنی نظیر نہیں رکھتے اور نماز وغیرہ کی بڑی پابندی کرتے ہیں، مگر عام مسلمانوں سے تو کیا اپنے حقیقی بھائیوں سے بھی تعلقات اچھے نہیں رکھتے اور عمر بھر کینہ پروری کرتے ہیں حالاںکہ رسولِ خدا ﷺ نے رشتہ داروں سے تعلقات قائم رکھنے کی بھی بڑی سخت تاکید فرمائی ہے۔ چناں چہ آپ نے فرمایا ہے کہ قاطعِ رحم( رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا ) جنت میں داخل نہ ہوگا۔1
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ کابیان ہے کہ رسولِ خداﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس قوم میں قاطعِ رحم ہو ان پر رحمت نازل نہیں ہوتی۔2
عام مسلمانوں کے لیے از حد ضروری ہے کہ آپس میں پھوٹ نہ ہونے دیں اور تعلقات اچھے رکھیں تاکہ دنیا میں قوت کمزور نہ ہو اور آخرت میں عذابِ الیم میں گرفتار نہ ہوں۔
حب في اللّٰہ: ایک دل ہوکر زندگی بسرکرنا اپنا فریضہ سمجھیں اورمحض خداکے لیے آپس میں میل ملاپ اور محبت رکھیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کابیان ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھا۔ آپ نے فرمایا: یقینا جنت میں یاقوت کے ستون ہیں، جن پر زبر جد کی کھڑکیاں ہیں، جن کے کھلے ہوئے دروازے ہیں، جوروشن ستارے کی طرح چمکتے ہیں۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا :یارسول اللہ! ان میں کون رہے گا؟ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے بارے میں محبت کرنے والے اور اللہ کے بارے میں ساتھ بیٹھنے والے اور اللہ کے بارے میں آپس میں ملاقات کرنے والے۔1
اللہ کے بارے میں محبت کرنے، ساتھ بیٹھنے ، ملاقات کرنے کامطلب یہ ہے کہ کسی بندہ سے صرف اس لیے محبت کرے کہ وہ خدا کاخاص بندہ ہے، عابد وزاہد ہے اور اسی وجہ سے اس سے ملاقات کرے اور اس کے پاس جاکر بیٹھاکرے۔