نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کے سامنے معذرت ظاہر کی ( اور معافی چاہی) اور دوسرے نے اس کو معذور نہ سمجھا اور اس کاعذر قبول نہ کیا تو( اس عذر قبول نہ کرنے والے) کو اتنا بڑا گناہ ہوگا جتنا ظلماً عشر وصول کرنے والے کوہوتا ہے۔7
اور ایک حدیث میں ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے مسلمان بھائی کے سامنے اپنا عذر پیش کیا اوراس نے قبول نہ کیا تو وہ میرے پاس حوض(کوثر)پر نہ آسکے گا۔8
صلح کرادینا: اگر دو مسلمانوں میں کینہ اورعداوت ہو تو دوسروں کو چاہیے کہ صلح کرادیں، اس کا بہت بڑا اجر ہے۔رسولِ خدا ﷺ نے صلح کرانے میں جھوٹ بولنے تک کی اجازت دی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ جھوٹا نہیں ہے جو دو لوگوں میں صلح کرائے،اور(اس سلسلے میں غیر واقعی باتیں بیان کرتے ہوئے)اچھی بات کرے یا(کسی کی طرف)بھلائی منسوب کرے۔1
جیسے زید اور خالد میں دشمنی ہو توزیدسے جاکرکہہ دے کہ میاں!خالدتمہاری تعریف کر رہا تھا اوراس نے تم کو سلام کہاہے،حالاںکہ درحقیقت ایسا نہ ہو۔
اورایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل صدقہ آپس میں صلح کرادینا ہے۔2
حضرت ابو الدرداء ؓ کابیان ہے کہ رسولِ خدا ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ ؓ کوخطاب کر کے فرمایا: کیا تم کو وہ چیز نہ بتادوں جو روزوں کے درجہ سے اور صدقہ کے درجہ اور نماز کے درجہ سے افضل ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، ارشاد فرمایے۔ آپ نے فرمایا : آپس میں صلح کرادینا۔ (پھر فرمایا:) اور آپس کابگاڑ دین کو مونڈدینے والا ہے۔3
اپنے پیارے آقا سرورِ عالم، مصلحِ اعظمﷺ کے ارشادات کو سامنے رکھ کر تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں تنازع وتخاصم، لڑائی جھگڑوں کو بالکل ختم کردیں اور بالکل ایک جان ہو کر زندگی بسر کریں۔ جس کاکسی سے سلام وکلام بند ہو اس کو چاہیے کہ صلح کرنے میں پیش قدمی کرے اور پہلے خود سلام کر کے گفتگو شروع کردے۔ اپنے دل میں یہ خیال کرنا کہ پہلے کیوں سلام کروں؟ کیا غرض پڑی ہے؟ اسلامی احساسات کے قطعی خلاف ہے۔ رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ بدلہ اتارنے والا تعلق جوڑنے والا نہیں ہے، بلکہ تعلق جوڑنے والا وہ ہے جس سے تعلق توڑا جائے اور وہ تعلق قائم رکھے۔4
حضور ﷺ کاارشاد ہے کہ تم ڈُھل مُل ارادہ والے نہ ہو کہ یوں کہو: لوگ ہمارے ساتھ احسان کریں گے تو ہم بھی کریں گے اور وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ظلم کریں گے(ایسا نہ کرو) بلکہ اپنے نفسوں کو اس چیز کی مشق کرائو کہ دوسرے