وقار ہے)،برائی کابدلہ برائی سے نہ دیتے تھے بلکہ معاف فرمادیتے تھے اور درگزر فرماتے تھے۔6
نیز فرماتی ہیں کہآپ نے جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کبھی کسی کو اپنے دست ِمبارک سے نہیں مارا، نہ کسی خادم کو نہ کسی بیوی کو۔
نیزفرماتی ہیں کہ آپ نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا، ہاں، اگر اللہ کے دین کی حرمتوں میں سے کسی کی بے حرمتی ہوتی تھی تو آپ سب سے زیادہ غصہ کرنے والے ہوتے تھے۔1
نیز فرماتی ہیں کہ ایک روز کاواقعہ ہے کہ رسولِ خدا ﷺ میرے پاس تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپ نے فرمایا: یہ اپنے قبیلہ کابراآدمی ہے۔2 پھر اسکو آنے کی اجازت دیدی۔ جب وہ اندر آگیا تو آپ نے نرمی سے گفتگو فرمائی۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! آپ نے تو اسکو برا آدمی بتایا تھا مگر جب وہ آگیا تو آپ نے نرمی سے بات کی؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ! وہ بدترین لوگوں میں سے ہے کہ جس کو لوگ اسکی بدکلامی کی وجہ سے چھوڑ دیں (لہٰذا ہر اچھے برے شخص سے نرمی سے گفتگو کرنا چاہیے)۔3
حضرت حسینؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے رسولِ خدا ﷺ کی سیرت کے متعلق سوال کیا تو فرمایا :آپ خوش خلق اور ہشاش بشاش رہتے تھے۔ آپ نرم خو تھے، نرم طبیعت تھے( کہ بسہولت سب کی حاجت میں مشغول ہوجاتے تھے) آپ نہ بد خو تھے، نہ سخت گوتھے، نہ چلا۔ّ کر بولتے تھے، نہ بدکلامی فرماتے، نہ کسی کو عیب لگاتے، نہ بخل فرماتے تھے۔ اپنی ناپسند چیز سے اعراض فرماتے تھے۔ دوسروں کی کوئی خواہش آپ کو ناپسند ہوتی تو اسکو مایوس بھی نہ فرماتے تھے اور صاف جواب بھی نہ دیتے تھے۔ اپنی جان کو آپ نے (خاص طور سے) تین چیزوں سے بچارکھا تھا: ۱۔ جھگڑنا۲۔ تکبر، اور ۳۔ لایعنی چیزیں۔ اور دوسروں کو تین باتوں سے (خصوصی طور سے) اپنی جانب سے بچا رکھا تھا:۱۔ کسی کی برائی نہ کرتے تھے ۲۔کسی کو عیب نہ لگاتے تھے، اور ۳۔ کسی کاعیب تلاش نہ فرماتے تھے۔ آپ صرف وہی کلام فرماتے جس میں ثواب کی امید ہوتی ۔ جب آپ کلام فرماتے تھے تو حاضر ینِ مجلس سرجھکائے بیٹھے رہتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے ہیں۔ جب آپ خاموش ہوتے تو حاضرین بولتے تھے اور آپ کی مجلس میں کسی بات میں جھگڑا نہ کرتے تھے۔ مجلس میں جب کوئی بولتا تو اس کے خاموش ہونے تک سب خاموش رہتے تھے۔ سب کی بات اسی توجہ سے سنی جاتی تھی جیسی افضل حضرات کی سنی جاتی تھی۔ سب ہنستے تو آپ بھی ہنستے اور سب تعجب کرتے تو آپ بھی تعجب کرتے۔( یہ نہیں کہ سب سے الگ چپ چاپ بیٹھے رہیں) مسافر آدمی کی سخت گفتگو اور اس کے بے جا سوالوں پر صبر فرماتے تھے، لہٰذا حضراتِ صحابہ ؓ مسافروں کو آپ کی مجلس میں خود لایاکرتے تھے کہ وہ کچھ معلوم کریں گے تو ہم کو بھی معلوم