ہوں وہ کھانی چاہئیں اور صحت کو نقصان دینے والی اور ۔ُبری چیزوں سے، خصوصاً بہت ترش اور مرچ والی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اسی طرح زمانۂ حمل میں کودنے پھاندنے اور اچھلنے دوڑنے اور بہت زیادہ بھاری وزن اٹھانے سے بچنا چاہیے ورنہ خطرہ ہے کہ حمل گر کر خون جاری ہونا شروع ہوجائے۔ ایسے ہی حمل کے ایام میں قبض والی چیزیں استعمال نہ کریں اور جب قبض ہوجائے تو اس کا فوراً علاج کریں۔ اسی طرح دست آور چیزوں کے استعمال سے بچیں۔
عورت کو یہ بھی چاہیے کہ ان ایام میں ہشاش بشاش اور خوش و خرم رہے، رنج و فکر اور غم میں بالکل مبتلا نہ ہو۔نیز کپڑے اور بدن کی صفائی کے ساتھ دل و دماغ کو بھی (گندے اور ۔ُبرے خیالات سے) پاک اور صاف رکھے، اس لیے کہ اس کا اثر قدرتی طور پر پیٹ کے اندر بچے پر پڑتا ہے۔ اس لیے ان ایام میں بچوں کی ماں کو انتہائی پاکیزہ اور مہذب رہنا چاہیے۔
حمل کے دنوں میں جماع اور صحبت کرنے سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔ خصوصاً ابتدائی چار ماہ اور ساتویں مہنے کے بعد، تاکہ حمل کو کوئی نقصان پیدا نہ ہو (البتہ شرعی طور سے جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں)۔
عورت چوںکہ حمل کے ایام میں کافی تکالیف میں رہتی ہے، پھر یہ مدت بھی کم نہیں ہوتی بلکہ تقریباً نوماہ تک رہتی ہے، پھر سب سے بڑی تکلیف بچہ جننے کے وقت ہوتی ہے، چناںچہ قرآن کریم میں ماں کی اہمیت اور اس کی عظمت بتانے کے لیے ان تکلیفوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ چناںچہ فرماتے ہیں:
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ۔
اس کی ماں نے اس کو اپنے پیٹ میں اٹھائے رکھا، کم زوری پر کم زوری برداشت کرکے۔
اسی طرح فرمایا:
حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا۔
اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں رکھا تکلیف کے ساتھ اور جنا تکلیف کے ساتھ۔
اور چوںکہ تکلیف ایک بچے کی وجہ سے ہے اور وہ بچہ خدا کا مومن بندہ ہوگا۔ رسول اللہﷺ کی امت میں اضافے کا باعث ہوگا۔ دین دار داعیٔ حق ہوگا۔ اس لیے حدیث پاک میں ثواب بھی بیان فرمایا گیا۔ چناںچہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ عورت زمانۂ حمل سے لے کر دودھ چھڑانے تک اس غازی کی طرح ہے جو سرحدوں کی نگرانی کرتا ہے اور ایسے غازی کا بڑا ثواب ہے۔ اسی طرح حدیث پاک میں ہے کہ عورت کا اگر درد زہ میں انتقال ہو تو وہ شہید کہلائے گی۔ اس لیے عورت کو حمل اور درد زہ کی تکلیفوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنا چاہیے۔ یہ فقط انسانی خواہش کی تکمیل نہیں بلکہ اس پر اسے بڑا ثواب ملے گا۔
ہاں! بعض مرتبہ اولاد کافی ہوجاتی ہے اور ابھی پہلا بچہ دودھ پیتا ہے یا بیوی کی صحت کم زور ہے اور تقاضا یہ ہے کہ اگلا بچہ جلدی نہ ہو، بلکہ کچھ تاخیر ہوجائے تو اس کے لیے کچھ صورتیں شریعت نے جائز رکھی ہیں۔ جس میں نہ مرد کو نقصان