عشقِ خدا کے مدرسے میں داخلہ لے لو۔ بس اللہ سے محبت ہوجائے، جب اللہ پیارا ہوگا تو ان کا ہر حکم خود ہی مانوگے۔ پھر نماز روزہ کے لیے کہنا نہیں پڑے گا۔ اللہ اتنا پیارا ہے کہ جب وہ دل میں آئے گا اور دل اللہ پر فدا ہوگا تو جسم ظالم کیوں نہ فدا ہوگا۔ جسم تابع ہےدل کے، جب دل اللہ پر فدا ہوگیا تو نماز بھی پڑھیں گے، روزہ بھی رکھیں گے، اللہ کو ناراض نہیں کریں گے، جان بھی دے دیں گے،شہادت بھی قبول کرلیں گے۔
توبہ کی تیسری قسم
آخر میں سب سے پیارا درجہ اخصّ الخواص کا ہے جن کو اولیائے صدیقین کہتے ہیں۔ تو اخص الخواص کی توبہ کیا ہے:
اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَیْبَۃِ اِلَی الْحُضُوْرِ22؎
جو ایک لمحہ اپنے دل کو اللہ سے غائب نہ ہونے دے، ہر وقت قلب کو اللہ کے سامنے رکھے، جب اِدھر اُدھر ہو فوراً ٹھیک کرلے، ان کا رجوع گناہ سے نہیں ہوتا، گناہ سے تو عموماً محفوظ کردیے جاتے ہیں، بس کبھی دل پر کچھ غبار سا، کچھ حجاب سا آ گیا اس غبار کو ہٹاکر وہ دل کواللہ تعالیٰ کے محاذات میں لے آتے ہیں۔
توبہ کے معنیٰ ہیں رجوع کرنا۔ رجوع کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے جب کوئی اپنے گھر سے باہر نکل جائے پھر لوٹ آئے، تو اللہ کے قُرب کی منزل سے دور ہونا لیکن پھر نادم ہوکر منزلِ قرب پر واپس لوٹ آنا اس کا نام رجوع الی اللہ ہے، توبہ ہے۔ معلوم ہوا کہ توبہ کی فرضیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ کبھی کبھی اللہ کے قرب سے ہمارا خروج ہوگا، شیطان ونفس کبھی ہم کو اللہ سے دور کردیں گے، لہٰذا جلد لوٹ آؤ۔ اب اس لوٹنے کی تین قسمیں ہیں جو ابھی بیان ہوگئیں۔ اللہ کی طرف سے جیسا جس پر یُحِبُّ کا ظہور ہوگا ویسی ہی اس کی توبہ ہوگی۔ عوام پر اللہ کی شانِ محبوبیت عام ہے، خاص پر خاص ہے ،اخصّ الخواص پر اعلیٰ درجےکی محبوبیت اور پیار ہے ،جس پر میں نے ایک شعر بھی کہا ہے؎
_____________________________________________
22؎ مرقاۃ المفاتیح:206/5،باب اسماءاللہ تعالی،دارالکتب العلمیۃ، بیروت