پیارے، پھر خاص پیارے، پھر خاص میں بھی اخصّ الخواص۔ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کا کون سا پیار چاہتے ہیں؟اخصّ الخواص والا، سب سے اعلیٰ والا یا یوں ہی معمولی؟ دیکھو!ایک دن مرنا ہے۔ اگر اعلیٰ درجہ کے پیار کو نہیں پاؤگے تو پچھتانا پڑے گا، لہٰذا جس دنیا پر مررہے ہو اور جس کی وجہ سے اخصّ الخواص والا پیار حاصل نہیں کررہے ہو کہ میں نہایت بزی (مصروف) ہوں تو سمجھ لو جن پر بزی ہو یہ سب چھوٹنے والے ہیں۔ بیوی ہو، بچہ ہو، سموسہ ہو، پاپڑ بریانی ہو۔ مرنے کے بعد کوئی مُردہ سیٹھ ایسا ہے جو ایک قطرہ چائے یا مکھن کی ایک ڈلی نگل لے۔ میں ایک ہزار روپیہ اس کو انعام دوں گا اگر کوئی مرُدہ مکھن کی ایک ٹکیہ نگل لے اور مرُدہ تو لے گا نہیں اس کے وارث کو دوں گا۔
توبہ کی پہلی قسم
توبہ کی پہلی قسم کا نام ہے:
اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِ
توبۂ عوام یہ ہے کہ گناہ چھوڑدے اور اللہ کی فرماں برداری میں لگ جائے۔ مولانا عبدالحمید صاحب کا افریقہ سے فون آیا کہ یہاں دو سو معتکف ہمارے پاس ہیں اور جب مجلس کرتا ہوں تو تین سو ہوجاتے ہیں اور لکھنؤ تک کے علماء آئے ہوئے ہیں۔ موزمبیق اور دوسرے ملکوں کے علماء آئے ہوئے ہیں اور میرے ہاتھ پر بیعت ہورہے ہیں۔ کہنے لگے ڈرتا ہوں کہ دل میں بڑائی نہ آجائے۔ میں نے کہا:آپ شکر ادا کریں، تشکر اور تکبر میں تضاد ہے۔ تشکر کریں گے تو اللہ کا قرب ملے گا،تکبر سے بُعد ہوتا ہے اور تشکر سے قُرب ہوتا ہے اور بُعد اور قرب میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ یہ میرا ٹیلی فونک خطاب ہے۔ تکبر ہمیشہ ظالم اور احمق کو ہوتا ہے جو اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ سے ہٹ کر اپنی صفت پر اس کی نظر آجاتی ہے۔ شکر سے اللہ کی صفتِ قرب اس کو عطا ہو تو ناممکن ہے کہ اس میں تکبر بھی آجائے،چوں کہ تکبر نام ہے بندے کا اپنے مولیٰ سے غافل ہوکر اپنی کسی صفت پر نظر کرنا کہ میں ایسا ہوں، اس لیے دوسروں سے برتر ہوں۔ جیسے ایک شخص دعویٰ کرتا ہےکہ آپ میرے محبوب ہیں اور میں آپ کے حسن وجمال پر فدا ہوں۔ اس کے بعد پھر آئینہ لے کر کہتا ہے کہ آپ کا تمام حسن وجمال اور شانِ کمال