جب تک اس کے ٹارگٹ اور اس کے محاذات سے آگے نہیں بڑھوگے، تمہارے قلب کا قبلہ صحیح نہیں رہے گا۔ یہ فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ8؎ کی تفسیر ہے کہ غیراللہ سے بھاگو۔ اور غیر اللہ سے ہر وہ چیز مراد ہے جس سے آپ کے قلب کا قبلہ متأثر ہو اور ایک اعشاریہ بھی اللہ سے دور ہو۔ جو دل اللہ تعالیٰ سے ایک اعشاریہ بھی دور نہ ہوگا، ایسے دل کو اپنی ذات پاک سے اللہ تعالیٰ ایسے چپٹالیں گے کہ سارا عالم اسے ایک اعشاریہ اپنی طرف مائل نہ کرسکے گا۔ بتاؤ یہ علمِ عظیم پیش کررہا ہوں یا نہیں؟ جس کی قسمت میں اللہ کی محبت ہوتی ہے وہ اپنے شیخ کی باتوں کو عظمت ومحبت سے سنتا ہے۔ آپ سارے عالم کی خانقاہوں میں پھرو، پھر اس فقیر کی تقریر سنو تو ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ محسوس کروگے کہ بزرگوں کی نظر اس فقیر پر کیا اثر رکھتی ہے۔
استغفار اور توبہ کا فرق
اور توبہ کےمتعلق ایک ضمنی سوال ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ استغفارکرو اور بعض بزرگ کہتے ہیں کہ توبہ کرو،جبکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی حکم دیے ہیں کہ استغفار بھی کرو اور توبہ بھی کرو۔ سوال یہ ہے کہ توبہ اور استغفار ایک ہی چیز ہے یا دونوں میں فرق ہے؟ بتائیے کیسا سوال ہے؟ عام مسلمان اور عام اُمتی اس کو ایک ہی سمجھتا ہے، لیکن یہ ایک نہیں ہے دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ میں ان شاء اللہ کوئی چیز بلادلیل نہیں پیش کروں گا۔ اس فقیر پر اللہ پاک کا کرم ہے،میرے اوپر اللہ کے کرم کا آفتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِسۡتَغۡفِرُوۡارَبَّکُمۡ اپنے رب سے استغفار کرو، مغفرت مانگو ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ9؎ پھر توبہ بھی کرو۔ اگر توبہ واستغفار ایک ہی چیز ہے تو عطف کیوں داخل ہوا؟ کیوں کہ عطف کا داخل ہونا معطوف علیہ اور معطوف میں مغایرت کی دلیل ہے۔ اگر یہ ایک ہی چیز ہوتی تو عطف داخل ہی نہ ہوتا۔ علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ یہاں حرفِ عطف ثم کا نازل ہونا دلیل ہے کہ استغفار الگ چیز ہے اور توبہ الگ چیز ہے کیوں کہ عطف کا قاعدہ کلیہ ہے کہ معطوف علیہ اور معطوف میں مغایرت لازم ہے، جیسے ایک آدمی کہے کہ روٹی اور سالن لاؤ اور وہ خالی روٹی لاتا ہے۔
_____________________________________________
8؎ الذّٰریٰت:50
9؎ ھود:3