روح کو تو سکون ملتا ہے، مگر تمہارا نفس تِل کے لیے تلملاتا ہے اور بل کے لیے بلبلاتا ہے، لہٰذا اس کو تلملانے دو اور بلبلانے دو، تکلیف اُٹھاؤ۔ گناہ چھوڑنے میں جو تکلیف ہوگی تمہارے نفس کو ہوگی، روح کو خوشی ہوگی، اور تم روح سے زندہ ہو، نفس سے زندہ نہیں ہو۔ تمہاری گناہ کی جفا کاریاں اور بے وفائیاں سب روح کی بدولت ہیں۔ اگر میں تمہاری روح قبض کرلوں تو تم کوئی گناہ نہیں کرسکتے۔ تمہارا سببِ حیات روح ہے تو تم سببِ حیات کی کیوں فکر نہیں کرتے؟ جب تم اللہ کی نافرمانی سے بچوگے تو کتنی حیات تم پر برس جائیں گی۔
محبوبِ الٰہی بنانے والی دُعا
تو مُتَطَہِّرِیۡنْ باب تفعل سے نازل ہونے کا یہ علمِ عظیم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا لیکن اس میں ایک علمِ عظیم اور ہے، وہ یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ تَوَّابِیۡنْ اور مُتَطَہِّرِیۡنْ کو محبوب رکھتے ہیں، تو آپ کی رحمت متقاضی ہوئی کہ وضو کے آخر میں یہ دُعا اپنی اُمت کو سکھادی جائے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ
دیکھیے جو اسلوبِ ِ نزول قرآنِ پاک کا ہے اسی اسلوب پر یہ دُعا سکھائی گئی اور قرآنِ پاک میں جو دو لفظ تَوَّابِیْنْ اور مُتَطَھِّرِیْنْ نازل ہوئے وہ اس دُعا میں آگئے۔ اس وقت قرآنِ پاک کی آیت اور ایک حدیث کا ربط پیش کررہا ہوں اور یہ بھی اللہ کا انعام ہے، ورنہ قرآنِ پاک کی آیت کہیں ہے اور حدیثِ پاک کہیں ہے۔ اگر اللہ کا کرم نہ ہو تو ذہن اس طرف نہیں جاسکتا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسانِ عظیم ہے، شفقت اور رحمت کا اُمت پر نزول ہے کہ وضو کے آخر میں یہ دُعا سکھادی کہ تم اب اپنے ربّ کے پاس کھڑے ہونے والے ہو ۔اے میری اُمت کے لوگو! نماز میں جب تم اپنے مولیٰ کے سامنے کھڑے ہو تو یہ دُعا پڑھ کر حاضری دو، تاکہ حالتِ محبوبیت میں تمہاری پیشی ہو اور میری اُمت کا کوئی فرد اس دُعا کی بدولت اس دُعا کی برکت سے محروم نہ رہے، نہ توابیت سے محروم رہے نہ مُتطہّریت سے محروم رہے، دونوں نعمتوں سے مالامال ہوجائے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کائنات کے ہر ذرے کی تعداد میں