کروڑہا کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے کہ اس رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے اوپر مہربانی کا کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا کہ تم یہ دُعا مانگتے رہو کہ اللہ مجھے تَوَّابِیْنْ میں داخل فرما اور مُتَطَہِّرِیۡنْ میں سے بنالے، یعنی ایسی توفیق دے دے کہ ہم آپ کی راہ کا غم اُٹھالیں۔غمِ لیلیٰ کو طلاق دے دیں اور غمِ مولیٰ کو سر آنکھوں پر رکھیں، کیوں کہ غمِ لیلیٰ کا آخری انجام پیشاب اور پاخانہ کی نالیوں سے مُرور اور عبور ہے اور غمِ مولیٰ کا انعام انواراتِ الٰہیہ اور تجلیاتِ الٰہیہ کا سرور ہے۔ اب خود فیصلہ کرلو کہ تم اپنی روح کو تجلیات میں لے جانا چاہتے ہو یا گٹر لائنوں میں؟
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کی یہ دُعا تعلیم فرما کر اُمت کو آدابِ بندگی سکھاکر، اس روحانی بیوٹی پارلر میں سجاکر امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو شانِ محبوبیت کے ساتھ حق تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کا نسخہ بتایا اور اللہ کے پیار کے قابل بنایا کہ جب تم اللہ کے سامنے کھڑے ہو تو محبوب بن کر کھڑے ہو، محبوب بن کر حاضر ہو، غیر محبوب نہ بنو،تاکہ حق تعالیٰ کی محبت کی نظر، پیار کی نظر، رحمت کی نظر تم پر پڑے۔ تو مُتَطَہِّرِیۡنْ کے کیا معنیٰ ہوئے؟ تَطَھُّرْ بابِ تفعل سے ہے کہ اگر تم کو اپنے کو پاک رکھنے میں تکلیف بھی اُٹھانی پڑے تو تکلیف اُٹھانے میں پیچھے نہ رہنا، تکلیف اُلفت سے اُٹھاؤ۔ جو اللہ کے راستے میں کلفت اُٹھاتا ہے،تو یہ دلیل ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے اُلفت ہے اور اُلفت کی برکت سے کلفت محسوس بھی نہیں ہوتی، پھر اس کا روزہ نماز بہت مزے دار ہوجاتا ہے، اس کو عبادت مزے دار معلوم ہوتی ہے۔
قرآن وحدیث کے ربط سے ایک علمِ عظیم
تو سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اُمتی کو مولیٰ کے سامنے محبوب بناکر پیش کردیا تاکہ اس حالت میں ہم اللہ کے سامنے ہوں تو اللہ کا پیار نصیب ہو اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ کی دُعا میں محبوبیت کی کوئی دُعا نہیں ہے لیکن یہ دُعا ایسی ہے جس کا ربط قرآن پاک کی آیت اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ سے ہورہا ہے کہ تَوَّاب اور مُتَطَھِّر اللہ کا محبوب ہوجائے گا، لیکن مُتَطَہِّرِیۡنْ باب تفعل سے فرمایا تاکہ اپنے کو گناہ سے بچانے میں، پاک رکھنے میں جو زخم حسرت لگے ہمارے اس زخمِ حسرت