اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں تَوَّابِیۡنَ کو اورمحبوب رکھتے ہیں مُتَطَہِّرِیۡنَ کو،یعنی توبہ کرنے والوں کوبھی اللہ محبوب رکھتا ہے اور طہارت میں مبالغہ کرنے والوں، نجاستوں سے خوب احتیاط کرنے والوں کو بھی محبوب رکھتا ہے۔عربی گرامر کے لحاظ سے یہاں عطف جائز تھا کہ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَالۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ہوتا یعنی دو بار یُحِبُّ نازل کرنا ضروری نہیں تھا، مگر اس میں زبردست معنویت اور اللہ تعالیٰ کا زبردست پیار ہے کہ دوبارہ یُحِبُّ کو داخل کیا۔ یہ حق تعالیٰ کے کلام کا کمال بلاغت ہے کہ محبت کی فراوانی اور دریائے محبت میں طغیانی کے لیے ایک یُحِبُّ کی نسبت تَوَّابِیۡنْ کی طرف فرمائی کہ اللہ تَوَّابِیۡنْ کو محبوب رکھتا ہے اور دوسرے یُحِبُّ کی نسبت مُتَطَہِّرِیۡنْ کی طرف فرمائی کہ اللہ مُتَطَہِّرِیۡنْ کو بھی محبوب رکھتا ہے۔ اپنے بندوں کی توابیت اور متطہریت ان دو اداؤں پر ان کو اپنا محبوب بنانے کا عمل نازل کرتا ہوں۔ یہ وجہ ہے دوبارہ یُحِبُّ نازل کرنے کی۔ سبحان اللہ! واہ رے محبوب تعالیٰ شانہٗ،کیا شان ہے آپ کی!
ایک مسئلۂسلوک کا استنباط
اور مُتَطَہِّرِیۡنَ باب تفعُّل سے نازل فرمایا۔ اس کے اندر ایک مسئلۂتصوف بھی ہے جو حق تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کسی تفسیر میں ہے یا نہیں، لیکن سارے علماء اور مفسرین ان شاء اللہ اس کو تسلیم کریں گے۔
اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الطَّاھِرِیْنَ نہیں فرمایا کہ ہم محبوب رکھتے ہیں پاک رہنے والوں کو، بلکہ مُتَطَہِّرِیۡنْ فرمایا جو باب تفعل سے ہے، جس میں خاصیت تکلف کی ہوتی ہے اور تکلف کے معنیٰ ہیں کہ تکلیف اُٹھاکر کسی کام کو کرنا۔ تو مطلب یہ ہوا کہ گناہوں کی نجاستوں سے پاک رہنے میں تم کو تکلیف اُٹھانی پڑے، کلفت پیش آئے تو اس سے دریغ نہ کرنا۔ جی نہیں چاہتا گناہ سے بچنے کو، جی نہیں چاہتا حسینوں سے نظر ہٹانے کو، مگر تم میری راہ میں تکلیف اُٹھالو۔ اگر لیلاؤں کو دیکھوگے تو پریشانی آئے گی اور یہ تکلیف راہِ لیلیٰ کی ہوگی لیکن مجھے خوش کرنے کے لیے تکلیف اُٹھاؤگے تو یہ تکلیف راہِ مولیٰ میں داخل ہوگی۔ اب تم خود فیصلہ کرلو کہ کس کی راہ میں تکلیف اُٹھانے میں فائدہ ہے؟ تمہارے مزاج میں اگرچہ گناہ پسندی اور حسینوں کی طرف نظربازی اور ذوقِ حسن بینی ہے، لیکن ان سے بچنے میں تمہاری