جس پانی پر میں مرا تھا وہ پانی نہیں رہا۔ (اس مقام پر اچانک فرمایا کہ میر صاحب بتاؤ عظیم مضمون ہے یا نہیں؟ میر صاحب نے عرض کیا، تو فرمایادیکھیے! میر صاحب کیا کہہ رہے ہیں کہ آج تو آپ نے مُردوں کو زندہ کردیا۔ جامع)
اللہ کے نام کا بے مثل مزہ کون پاتا ہے؟
میں پھر کہتا ہوں کہ اللہ کا نام دردِ محبت سے لینا سیکھ لو اور گناہوں کے ملیریا کا علاج کرلو، کیوں کہ جسمانی ملیریا میں صفراویت بڑھ جاتی ہے تو بریانی اور شامی کباب کا مزہ نہیں آتا۔ جن کو گناہوں کا ملیریا ہے، جو پیشاب پائخانے کے مقامات سے مانوس ہیں، تو اللہ کی محبت کا ذوق ان کی سمجھ میں نہیں آتا،اس لیے میں کہتا ہوں کہ ایک اللہ دردِ دل، دردِ محبت سے کہوگے مگر پہلے گناہ سے بچ جاؤ تو اللہ کے نام میں وہ مزہ پاؤگے کہ لذتِ دوجہاں کو بھول جاؤگے۔جیسے پہلے کپڑے سے پیشاب پاخانہ دھولو، پھر عود کے عطر کا مزہ آئے گا۔ اللہ کے نام کا اگر مزہ لینا ہے تو غیر اللہ سے قلب کو پاک کرلو، اللہ والوں کے ساتھ رہو، تقویٰ حاصل کرو، ایک سانس بھی اللہ کے خلاف نہ لو، پھر جب متقی قلب سے تعلق مع اللہ کے ساتھ اللہ کہوگے تو پتا چلے گا کہ اللہ کے نام میں کیا مزہ ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ کہتا ہوں تو جیسے میری روح میں کوئی شکر گھول دیتا ہے اور فرماتے ہیں میرے بال بال میں شہد کا دریا بہہ جاتا ہے۔ جو اللہ حوروں کو حسن دے سکتا ہے، لیلاؤں کو نمک دے سکتا ہے، سموسہ پاپڑ میں لذت دے سکتا ہے،وہ اللہ جب دل میں متجلی ہوتا ہے تو دونوں جہاں کی لذت کا کیپسول دل میں آتا ہے۔ کیپسول میں دو حصہ ہوتا ہے، ایک نیچے اور دوسرا اوپر۔ نیچے دنیا ہے اوپر آخرت ہے، تو جب اللہ دل میں آئے گا تو دونوں جہاں کی لذتوں سے بڑھ کر مزہ دل پائے گا،کیوں کہ خالق ومخلوق برابر نہیں ہوسکتے۔ خالقِ جنت اور جنت کا مزہ برابر نہیں ہوسکتا۔ تو میں آپ کو دونوں جہاں کی لذتوں سے بڑھ کر لذت کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔ آہ! میں نے آپ سے نہیں کہا کہ آدھی رات کو جاکر قبرستان میں چلّہ کھینچو، دریا میں اُترو۔ ہم تو آپ سے یہ کہتے ہیں کہ دونوں جہاں کی لذتوں سے بڑھ کر مزہ لینے کے لیے آجاؤ،