لفظ تَوَّابِیْنْ کے نُزول کی حکمت
اور اصطلاح میں تَوَّابِیْنْ کی تین قسمیں ہیں: محدثین کی شرح سے پیش کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تَوَّابِیْنْ کو محبوب رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تائبین کیوں نہیں فرمایا؟ جواب یہ ہے کہ جب تم کثیر الخطا ہو تو تم کو کثیر التوبہ ہونا چاہیے، جب تمہارا بخار تیز ہے تو جیسا مرض ویسی دوا، جب تم نے خطائیں زیادہ کی ہیں تو زیادہ توبہ کرنے میں تم کو کیا رکاوٹ ہے؟ اسی لیے فرمایا کہ میں محبوب رکھتا ہوں کثرت سے توبہ کرنے والوں کو،کیوں کہ جو کثیرالرجوع نہیں ہیں وہ ہماری جدائی کا احساس بھی زیادہ نہیں رکھتے، وہ ہم سے کچھ فاصلے بھی رکھتے ہیں، اسی لیے پریشانی میں ہیں اور اسی لیے جلدی توبہ بھی نہیں کرتے کہ دوچار گناہ اور کرلیں، ہر بس اسٹاپ پر گناہ کے مزے لوٹ کر جائیں، پھر شام کو گھر آکر توبہ کرلیں گے،کیوں کہ اگر ایک اسٹاپ پر توبہ کرلیں گے تو اگلے اسٹاپ پر مزہ کیسے ملے گا؟ بتاؤ یہ کس قدر کمینہ پن ہے اور تصوف کی روح ہی نہیں ہے اس ظالم کے اندر۔ یہ حق تعالیٰ کی جدائی پر صبر کرنے والا، حرام لذت سے مزے اُڑانے والا، بہت ہی نامناسب مزاج رکھنے والا غیر شریفانہ ذوق رکھتا ہے۔
ولایتِ عامّہ اور ولایتِ خاصّہ
اب رجوع الی اللہ کی تین قسمیں ہیں اور جب شانِ محبوبیت ہماری توبہ یعنی رجوع الی اللہ سے متعلق ہے تو محبوبیت کی بھی تین قسمیں ہوجائیں گی، اللہ کے پیاروں کی تین قسمیں ہوجائیں گی۔ ایک عوامی پیار، کہ اللہ ہر مومن کو پیار دیتا ہے۔ جیسے فرمایا:
اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا12؎
اللہ ہر ولی کو پیار کرتا ہے، ہر مومن کا ولی ہے۔
مگر یہ ولایت عامہ ہے۔ جو تقویٰ سے رہتے ہیں وہ خاص ولی ہیں، ان کی دوستی کا معیار بلند ہوجاتا ہے، مومن متقی ولی خاص ہوتا ہے، لیکن ہر مومن کو ولی فرمایا اگرچہ گناہ گار
_____________________________________________
12؎ البقرۃ:257