ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
فرانس کے سب سے بڑے سرمایہ دار اور جا گیردار پادری تھے کیونکہ اُنہوں نے صلیبی جنگوں کے نام پر عوام سے جو سرمایہ اکٹھا کیا تھا اُسے اپنی جائیدادیں بنانے پر خرچ کیا اِسی لیے جب اُن کے خلاف دو صدیاں نفرت اور تمسخر سے بھرا پروپیگنڈا کیا گیا تو کوئی اُن کی ہمدردی میں نہ اُٹھا کسی نے اُن کا ساتھ نہ دیا بلکہ وہ خود بھی خاموش ہو کر بیٹھے رہے۔ چرچ کی اِس خاموشی کو سیکو لر اِزم کے کرتا دھرتا لوگوں نے آزادی ٔ اِظہار کی فتح قرار دیا اور یہ گمان کر لیا کہ کسی بھی مذہب یا اُس کے ماننے والوں کی محترم شخصیت کا اگر کبھی مذاق اُڑایا گیا تو کم اَز کم فرانس یاپیرس میں ہمارا سامنا کوئی نہیں کرے گا ہم آزادی ٔ اِظہار کے نام پر سب کچھ اور سب کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے ۔ اِدھر فرانس کے مفتوح اَفریقی اور مشرقی وسطیٰ کے ممالک کے اَفراد یہاں آباد ہونا شروع ہوئے جن کی اکثریت مسلمانوں کی تھی مراکش ، اَلجزائر، مصر، شام، لبنان اور دیگر ملک ،اِن سب نے پیرس کے اِس رنگا رنگ ماحول کو اَوڑھ لیا جس نے سیکولر اِزم کی کوکھ سے جنم لیا تھا، اِس ماحول کو اَرباب اِقتدار فرانسیسی تہذیب اور ثقافت کہتے ہیں اور اِس کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اِسے ہر حال میں قائم رکھا جائے گا بلکہ اِن سیکو لر اَخلاقیات کو بزور نافذ کیا جائے گا۔ اِس کا پہلا شکار وہ 92 عورتیں ہوئیں جو پیرس شہر میں نقاب اَوڑھتی تھیں ،اُن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ فرانسیسی تہذیب وثقافت پر حملہ ہے اِن 92 عورتوں کے مقابلے میں فرانس کی اسمبلی کے کئی سو اَرکان اکٹھے ہوئے اور نقاب پر پابندی لگادی۔ یہ کسی شخص کے ذاتی اِنتخاب ِلباس پر قد غن ہی نہیں بلکہ اُس کا تمسخر اُڑانا بھی تھا ۔ اِس کے بعد چارلی ہیبڈو نے رسولِ اکرم ۖ کے کارٹون شائع کیے اِس اَخبار کو بخوبی علم تھا کہ فرانس میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور اُسے یہ بھی