ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
اور رسول اللہ ۖ نے ہمیں یہ بھی بتلایا کہ اپنی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ سے مانگنا اور دُعا کرنا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے بلکہ عبادت کی رُوح اور اُس کا مغز ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ دُعا عبادت ہے ۔اور ایک روایت میں ہے کہ دُعا عبادت کا مغز اور جوہر ہے۔ ایک دُوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''اللہ کے یہاں دُعا سے زیادہ کسی چیز کا درجہ نہیں۔'' اور اِسی لیے اللہ تعالیٰ اُس شخص سے ناراض ہوتا ہے جو اپنی ضرورتیں اُس سے نہ مانگے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ : ''اللہ تعالیٰ اُس بندے سے ناراض ہوتا ہے جو اپنی حاجتیں اور ضرورتیں اُس سے نہیں مانگتا۔'' سبحان اللہ ! دُنیا میں کوئی آدمی اگر اپنے کسی گہرے دوست سے یا اپنے کسی عزیز قریب سے بھی بار بار اپنی ضرورتوں کا سوال کرے تو وہ اُس سے تنگ آکر خفا ہوجاتا ہے لیکن اللہ پاک اپنے بندوں پر ایسا مہربان ہے کہ وہ نہ مانگنے پرخفا اور ناراض ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ : ''جس شخص کے لیے دُعا کے دروازے کھل گئے (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس کو دُعا کی توفیق مل گئی اور اصلی دُعاکرنا جسے نصیب ہو گیا) تو اُس کے لیے اللہ کی رحمت کے دروازے کھل گئے۔'' بہرحال کسی ضرورت اور مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرنا جس طرح اُس کو حاصل کرنے کی تدبیر ہے اِسی طرح وہ ایک اعلیٰ درجے کی عبادت بھی ہے جس سے اللہ بہت راضی اور خوش ہوتا ہے اور اُس کی وجہ سے رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ یہ شان ہر دُعا کی ہے خواہ وہ کسی دینی مقصد کے لیے کی جائے یا کسی دُنیاوی ضرورت کے لیے مگر شرط یہ ہے کہ کسی برے اور ناجائز کام کے لیے نہ ہو، ناجائز کام کے لیے دُعا کرنا بھی ناجائز اور گناہ ہے۔