ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
جس کا کوئی علم (کوئی ثبوت) تمہارے پاس نہیں ہے تو ماں باپ کی یہ بات نہ مانو اور اس سلسلہ میں اُن کی اِطاعت مت کرو، جہاں تک آپس کے معاملات اور رہن سہن کا تعلق ہے تم اُن کے ساتھ بھلی طرح اور دستور کے مطابق رہو جو ماں باپ کے ساتھ رہنے کا جانا بوجھا طریقہ ہے۔ '' آنحضرت ۖ جس شدت اور قوت کے ساتھ صلح آشتی اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن ِ سلوک کی تعلیم دیاکرتے تھے اِس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے تربیت یافتہ صحابہ حسن ِ سلوک کوبھی اِیمان کا جزو سمجھنے لگے تھے اور یہ بات ذہنوں میں پختہ ہوگئی تھی کہ اِسلام سے بر گشتہ ١ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہم اپنے رشتہ داروں کے حق میں بھی بدسلوکی پر اُتر آئیں۔ ایک طرف صلح اور آشتی چھوڑ کر مُلک میںفساد برپا کریں، تعمیر وتمدن کو نقصان پہنچائیں، دُوسری جانب خود اَپنوں کے گلے کاٹیں جیسا کہ ماضی میں یہ سب کچھ کرتے رہے تھے۔ ( فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ تُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ ) ٢ ''اے مسلمانو ! اگر تم اِسلام سے بر گشتہ ہوتے ہوتو کیا پھر ایسا نہ ہوگا کہ مُلک میں فسادبرپا کرنے لگو اور رشتوں اور ناتوں کو توڑو (برادر کُشی کرو اور آپس میں ایک دُوسرے کا گلا کاٹو)۔ '' آنحضرت ۖ کی صلح پسندی اور بلا اِمتیاز دین و مذہب، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور حقوق قرابت کی پاسداری اِس درجہ مشہور اور مسلَّم تھی کہ رُومة الکبریٰ کے شہنشاہ (ہرقل) کے دربار میں خود اُس کی طلب پر جب قریش کے سر برآوردہ نمائندے پیش ہوئے اور اُس نے اُن سے دریافت کیا کہ محمد (ۖ) جونبوت کا دعوی کر رہے ہیں اور اُنہوں نے مجھے بھی اِسلام کی دعوت دی ہے وہ کیا بتاتے ہیں تو اَبو سفیان جیسے دُشمن ِاِسلام کا بھی بے ساختہ جواب یہ تھا : یَأْمُرُنَا بِالصَّلٰوةِ وَالصَّدَقَةِ وَالْعَفَافِ وَالصِّلَةِ۔ (بخاری شریف رقم الحدیث : ٥٩٨٠) ١ بدظن ٢ سُورہ محمد : ٢٢