ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
کرتا تھا لیکن وہ اپنے گرجے سے کبھی نہ نکلا کرتا تھا اِس دفعہ وہ خود بخود اِس قافلے کے پاس اُتر کر آیا اور آپ کی وجہ سے تمام قافلہ والوں کی دعوت کی، سب کو ایک درخت کے نیچے بٹھلایا آپ اُس وقت کسی کام پر تشریف لے گئے تھے، واپس آئے تو سایہ میں جگہ نہ پائی اِس لیے دھوپ ہی میں بیٹھ گئے گویا جہاں جگہ مِلی وہیں تشریف فرماہوئے، جب آپ دھوپ میں بیٹھے تو درخت کا سایہ آپ کی طرف آگیا اِس لیے اَبوطالب سے کہا کہ آپ اِن کے سر پرست ہیں آپ اِنہیں آگے سفرمیں ساتھ نہ رکھیں بلکہ واپس بھیج دیں اور اِن کا خیال رکھا کریں یہ نبی ہیں، بعض دُوسری قوموں کے لوگوں کے دِلوں میں اِن کے خلاف شر اور دُشمنی ہوگی، کہیں وہ کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں، میں نے دیکھا ہے کہ آپ کو تمام درختوں اور پتھروں نے سجدہ کیا ہے اور یہ نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں چنانچہ اَبو طالب نے اُس راہب کی بات مان لی اور آپ کو وطن واپس بھیج دیا۔ ہر شخص آپ کی فضیلت اور بر تری کا معترف تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی خوبیاں اور حسنات دیکھ آپ کی بیوی بنیں اور آخر تک آپ کی معترف رہیں،بخاری شریف کی ایک روایت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی خوبیاں اِس طرح بیان فرماتی ہیں کہ آپ ناداروں کی اِمداد فرماتے ہیں، پڑوسیوں کے حقوق کی نگہداشت کرتے ہیں، بڑوں کا اِحترام فرماتے ہیں، چھوٹوں پرشفقت فرماتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو پوری کائنات پر بر تری بخشی تھی، خداکی تمام مخلوق میں کوئی آپ کا ہمسر نہیں، آپ ہر حیثیت سے با لا ترہیں۔ مذکورہ بالا دو حدیثوں میں جو مشکوة شریف میں بحوالہ بخاری شریف اور ترمذی شریف مذکور ہیں آپ کی اِن عاداتِ مبارکہ کا ذکر ہے جن کا تعلق بندوں سے ملنے جلنے اور اُن کے ساتھ معاملہ سے ہے اِس کا نام اَخلاق ہے اور قرآنِ کریم میں اِرشاد ہے (وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ ) یقینا آپ بڑے اور بلند اَخلاق پر پیدا فرمائے گئے ہیں۔