ماہنامہ انوار مدینہ لاہور دسمبر 2015 |
اكستان |
|
میں صرف ایک ہی آگ تھی جسے اِنتقام کی آگ کہا جاتا ہے ! ! جس شخص نے اپنے ہاتھوں اپنے پیاروں کو دفنا یا ہواُ سے اِرد گرد خوشیاں مناتے لوگ اچھے نہیں لگتے ! ! ! وہ ذاتی اور نسلی اِنتقام کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے وہ شام سے تعلق رکھتا ہے اور شام کا اِنتقام لیتا ہے شام جس پر پورا مغرب اور رُوس سب ٹوٹ پڑے ہیں لیکن........... فرانس کا شہر............پیرس ................کیوں ؟ ؟ ؟ اِس لیے کہ یہی شہر تھا جہاں دُنیا بھر کے حکمران تمسخر اُڑانے والوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے جمع ہوئے تھے اور وِلڈیورینٹ کے نزدیک لوگ..... بھوک ......برداشت کر لیتے ہیں ! تمسخر نہیں ! ! ! ٭ لیکن اِسلام اور مسلمانوں کے ساتھ تمسخر کے اِس عمل کو عالمی سطح پر عالمِ کفر کے قائدین بڑی بے شر می کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں مثال کے طور پر ٢٤ نومبر کے روزنامہ نوائے وقت میں برطانوی اَخبار ''دی اِنڈی پینڈنٹ '' کی رپورٹ کے مطابق '' بر طانیہ میں مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ نسلی حملوں میں تین سو فیصد اِضافہ ہوا ہے پیرس کے حملے کے بعد ایک ہفتے کے دوران مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بنانے کے ایک سو پندرہ واقعات پیش آئے زیادہ تر واقعات میں چودہ سے لے کر پینتالیس سالہ خواتین کو اِسلامی لباس پہننے پر نشانہ بنایا گیا ۔'' نوائے وقت ہی میںکمشنر یو رپی یونین ''دی میٹرس ارما پولس'' نے بناؤٹی شائستگی کے لبادہ میں تمسخر کرتے ہوئے کہا کہ ''پیرس حملے پاکستانیوں کی زندگی مشکل بنائے جانے کا تاثر درست نہیں، حملے کرنے والے یورپ کے پیدائشی اور وہیںجوان ہوئے، ہم کسی کی بے عزتی نہیں کرتے۔ '' مسخروں کے سر دار ''اوبامہ '' اپنے عیارانہ اَنداز میں فرماتے ہیں :