ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
(١) اِمام ُالائمہ سراجُ الامة سیّدنا اِمام اعظم اَبوحنیفہ (٢) اِمام ِ دارُالہجرة اِمام مالک بن اَنس (٣) اِمام محمد بن اِدریس الشافعی (٤) اِمام اَحمد بن حنبل آج دُنیا میں اِن ائمہ مجتہدین کے اُصولِ اِجتہاد اور اِن کی فقہیں باقی ہیں اور دُنیا بھر میں حسب ِمراتب و حسب ِ ضرورت اِن ہی پر تمام اہلِ سنت والجماعت کا عمل ہے، یہ چاروں فقہیں برحق ہیں اور اِن کے ماننے والے اور اِن پر عمل کرنے والے ناجی ہیں اور اِن ہی کے ماننے والے اہلِ سنت والجماعت کہلاتے ہیں جو مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ کا صحیح مصداق ہیں۔ چاروں فقہوں میں سے ایک ہی پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے ؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک اِعتراض کا جواب دے دیا جائے، بعض لوگ یہ اِعتراض کرتے ہیں کہ جب چاروں فقہیںبرحق ہیں تو اُن میں سے فقط ایک کو عمل کے لیے اَپنانا اور باقیوں کو چھوڑنا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے ، حسب ِ ضرورت چاروں پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ ٭ اَوَّلًا تو بیک وقت چاروں فقہوں پر عمل ناممکن ہے، کیونکہ اِجتہادی مسائل میں ائمہ مجتہدین کا اُن کے اُصولِ اِجتہاد کی بناء پر اچھا خاصا اِختلاف ہے ایسی صورت میں بیک وقت چاروں فقہوں پر عمل نہیں ہو سکتا مثلًا آپ ایک نماز ہی کو لے لیجیے اُس میں شروع سے آخر تک پچاسیوں اِختلافات ہیں چنانچہ نماز شروع کرتے ہی ہاتھ باندھنے کا مرحلہ آتا ہے اُس میں اِختلاف ہے کہ نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں ،حضرت اِمام شافعی کے نزدیک ناف سے متصل اُوپر اور حضرت اِمام اَبوحنیفہ اور اِمام اَحمد کے نزدیک ناف سے متصل نیچے باندھے جائیں،حضرت اِمام مالک کے نزدیک سرے سے ہاتھ باندھے ہی نہیں جاتے وہ ہاتھ کھلے چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔