ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
رنگ جماتی اور مجمع کو ہنساتی اور کبھی ماحول کو زعفرانِ زار بنادیتی تھی۔ جمعیة علمائِ ہند کی تاسیس : ١٩١٩ء میں حضرت مفتی اعظم نے جمعیة علمائِ ہند کے قیام کے لیے دیگر علمائے کرام سے جو مذاکرات فرمائے اُن میں مولانا اَحمد سعید صاحب دہلوی بھی آپ کے دست ِراست تھے، مدرسۂ اَمینیہ دِلی کے جس کمرے میں حضرت مفتی صاحب بیٹھتے تھے یہی جمعیة کا پہلا دفتر تھا اُس کمرے میں دونوں اُستاذ شاگرد تمام اِبتدائی اُمور اَنجام دیتے تھے، مولانا مفتی حفیظ الرحمن واصف دہلوی سے حضرت سَحبَان الہند فرمایا کرتے تھے : ''میاں مفتی صاحب ! دفتر جمعیة کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے اِس طرح چلایا ہے کہ حضرت تو حساب کتاب لکھتے تھے اور میں ڈاک تیار کر کے خود ڈاک خانے لے جاتا تھا۔'' (مفتی اعظم کی یاد ص ٣٥٦) سیاسی تحریکات : اَنگریزوں کو ملکِ عزیز سے نکالنے میں علمائِ حق نے بھر پور جدو جہد کی، حضرت سَحبَان الہند ترکِ مولات کے سلسلے میں پہلی مرتبہ ١٩٢١ء میں گرفتار ہو کر میانوالی جیل میں رہے ، ایک سال قید بامشقت کی سزا ہوئی، ٢٨ ستمبر ١٩٢٢ء کو رہائی ملی، اِس اَسیری کے زمانے میں پنجاب اور یوپی کے بہت سے ہندو مسلمان رہنماؤں کے ساتھ تھے اُن کے ساتھ اَمیر شریعت حضرت مولانا سیّد عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اِسی جیل میں اَسیر تھے۔ ١٩٣٠ء اور ١٩٣٢ء کی تحریک ِسول نافرمانی میں حصہ لینے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور ملتان جیل میں اَسیری کے اَیام گزارے، اُسی اَسیری کے اَیام میں آپ کے اُستاذِ محترم حضرت مفتی اعظم بھی ہمراہ تھے، حضرت سَحبَان الہند کی رہائی کا پروانہ پہلے آگیا اور اُنہیں ملتان جیل سے رہا کر دیا گیا، اِس رہائی کے وقت آپ کے اُستاذِ اکبر حضرت مفتی اعظم نے اپنے دِلی جذبات کا اِظہار اِس طرح فرمایا :