ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
چوتھی وجہ : فقہ حنفی میں بین الاقوامی معاملات پر جتنی تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے اِس قدر بحث کسی اور فقہ میں نہیں کی گئی چنانچہ اِمام محمد رحمة اللہ علیہ کی'' السیرُ الکبیر ''اور اِمام سرخسی رحمة اللہ علیہ کی ''شرحُ السیرالکبیر ''سے اِس کا بخوبی اَندازہ کیا جا سکتا ہے۔ پانچویں وجہ : فقہ حنفی میں ہر دَور کی ضروریات اور جدید ترقیات کے ساتھ چلنے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے۔ چھٹی وجہ : فقہ حنفی دُوسری فقہوں کی بہ نسبت آسان اور نرم ہے عبادات میں بھی اور حدود و قصاص میں بھی، اِس کی بھی چند مثالیں ملاحظہ فرماتے چلیں، اکثر فقہاء نے نجاست کو مطلقاً نماز کے منافی قرار دیا اور اَدنیٰ درجہ کی نجاست کو بھی قابلِ عفو نہیں مانا جبکہ اِمام اعظم نے اَوّلاً تو نجاست کی دو قسمیں کیں:(١) غلیظہ (٢) خفیفہ، پھر فرمایا کہ نجاست ِ غلیظہ ایک درہم سے کم کم معاف ہے اگر اِتنی نجاست کپڑے یا بدن پر لگی رہ جائے اور نماز پڑھ لے تو ہوجائے گی ،اور نجاست ِ خفیفہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ چوتھائی کپڑے سے کم لگی رہے تو معاف ہے۔ ائمہ ثلاثہ اِمام مالک اِمام شافعی اِمام اَحمد رحمہم اللہ کے نزدیک مس ِمرأہ ناقضِ وضو ہے جبکہ اِمام اَبو حنیفہ کے نزدیک ناقض ِوضو نہیں، جو لوگ طواف کر رہے ہوتے ہیں اُن سے اِس مسئلہ کے اہمیت کے متعلق معلوم کر لیجیے، سب کو پتہ ہے کہ طواف مشترکہ ہوتا ہے، مردو زن سب اکٹھے طواف کرتے ہیں اور طواف کے لیے وضو ضروری ہے وہاں ناممکن ہے کہ مسِ مرأہ نہ ہو، اب فقہ حنفی پر عمل پیرا لوگوں کے لیے تو آسانی ہے کہ اُن کے اِمام کے نزدیک عورت کے ہاتھ لگنے سے وضو نہیں ٹوٹتا، اِس کے بر عکس دُوسری فقہ والوں کے لیے سخت دُشواری ہے کہ یا تو اپنی فقہ پر عمل چھوڑ دیں یا پھر وضو کرتے رہیں۔