ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
کہنا بجا ہے) کو معینِ مدرس کے طور پر مدرسہ ٔ اَمینیہ دِلی میں مقرر کر لیا تھا اور کچھ اِبتدائی کتابیں پڑھانے کے لیے دے دیں تھیں، حضرت سَحبَان الہند نے بہت محنت اور ذمہ داری کے ساتھ کئی برس تک یہ خدمت اَنجام دی، اِس خدمت کا یہ فائدہ ہوا کہ درسیات میں اِن کی نظر گہری ہوگئی۔ دُوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ایک مربی کامل کی نگرانی اور قرب و فیض ِ صحبت سے جو ہرِ قابل جِلا پاتا رہا اور اُن کا سینہ ٔ بے کینہ علوم ومعارف کے اَنوار سے معمور رہا، اب چونکہ علوم و فنون میں اُنہیں رُسوخ حاصل ہو گیا تھا اِس لیے اُن کی تقریر اَب اُڑائی ہوئی تقریر نہیں ہوتی تھی بلکہ ٹھوس مدلل اور مربوط ہونے کے ساتھ اُس میں ایک علمی شان بھی پیدا ہوگئی تھی، زبان کی لطافت و شیرینی اور فصاحت و بلاغت کی خوبی پہلے سے تھی اُس کارنگ بھی شوخ اور پختہ ہو گیا تھا، اِس کے بعد وہ اپنے وقت کے ایک کامیاب واعظ و خطیب اور واقعی ''سَحبَان الہند '' بن گئے تھے اور خطابت کے میدان میں اُن کا ڈنکا بجنے لگا تھا اُن کی مقبولیت آسمان کو چھورہی تھی اور عوام میں اُن کی مانگ بہت بڑھ گئی تھی۔ مناظرے کی تربیت : حضرت مولانا اَحمد سعید صاحب دہلوی نے تحصیل ِعلوم و فنون کے ساتھ فن ِمناظرہ پڑھا بھی تھا اور باقاعدہ اِس کی تربیت حاصل کی تھی، اُن کے اُستاذ و مربی حضرت مفتی اعظم مناظروں میں اُن کے ساتھ ہوتے تھے وہ مقابل کے اِعتراضات کے جواب بھی بتلاتے تھے اور سوالات پوچھنے اور اِعتراضات کرنے میں بھی اُن کی رہنمائی فرماتے تھے۔اُس دور میں مولانا مرحوم نے معرکة الاراء مناظرے کیے، اُس وقت آریوں میں بڑے بڑے فاضل مناظر اور خطیب موجود تھے، پنڈت رام چند دہلوی کا نہ صرف دِلی بلکہ پورے ہندوستان میں طوطی بول رہا تھا، قرآنِ مجید عمدہ پڑھتا تھا اور بڑا طرار چرب زبان تھا ،مولانا نے اُس سے بھی مناظرہ کیا ،مولانا کی حاضر جوابی، خطابت اور بذلہ سنجی ہمیشہ سب پر غالب رہتی اور حضرت مفتی اعظم کی اِعانت سونے پر سہاگے کا کام کرتی تھی۔ مولانا نے بڑے بڑے میدان جیتنے اور اپنے مقابلین کو شکست ِفاش دی اور اُنہیں فرار پر مجبور کردیا۔ مناظروں کی مشق نے مولانا کے اَندازِ بیان کو نقطۂ کمال پر پہنچادیا تھا، مناظرے میںاُن کی ظرافت اور بذلہ سنجی بھی اپنا