ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
حرفِ آغاز نَحْمَدُہ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِےْمِ اَمَّا بَعْدُ ! دینی علوم ہوں یا عصری اور فنی اِن کے اپنے اپنے کچھ تقاضے ہو تے ہیں اگر اُن تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے تو نتائج بہتر سے بہتر ہوتے چلے جاتے ہیں اور اگر ملحوظ نہ رکھا جائے تو اِنحطاط کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ طالب علم ہوں یا اَساتذہ دینی جامعات کے ہوں یا یو نیوسٹیوں اور کالجوں کے اُن کا اصل کام پڑھنا اور پڑھانا ہوتا ہے جس کی بدولت ''دینی مدارس'' کے ذریعہ ''اِنسانیت'' کو اور'' عصری علوم کی درسگاہوں'' کے ذریعہ ''اِنسان'' کو فائدہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ''رُوحانی'' اور ''مادّی'' دونوں میدانوں میں اِنسان ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ آج کل موبائل فون کے اِستعمال کی بے اِعتدالی نے ہر میدان میں اِنتہائی منفی اَثرات مرتب کیے ہیں تعلیمی میدان کو تو خاص طور سے گہنا کر رکھ دیا ہے ہمارے ملک کے اَکثر دینی مدارس بھی اِس کی آلودگی سے بری طرح آلودہ ہوئے ہیں کیا طلباء اور کیا اَساتذہ ! ! البتہ ملک کے بعض جامعات میں اِس کے اِستعمال پر پابندی ہے بلکہ رکھنا ہی قابلِ سزا جرم ہے اللہ کرے کہ تمام ہی مدارس اِس قابلِ تقلید اُصول کو اپناتے ہوئے اِس کو عمل میں لائیں۔