ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت اَبو موسٰی اَشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''اللہ کو یاد کرنے والے کی مثال اور یاد نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے (یعنی یاد کرنے والا زندہ ہے اور یاد نہ کرنے والا مردہ بلکہ مردار ہے )۔'' اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖ نے اِرشاد فرمایا : ''ہر چیز کے لیے کوئی صیقل ہوتا ہے اور دلوں کا صیقل اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے عذاب سے نجات دلانے میں کوئی چیز بھی اللہ کے ذکر سے زیادہ مؤثر نہیں۔'' ذکر کی حقیقت : یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ذکر کی اصل حقیقت یہ ہے کہ آدمی اللہ سے غافل نہ ہو، وہ جس حال اور جس مشغلہ میں ہو اُس کو اللہ کا اور اُس کے اَحکام کا خیال ہو، اِس کے لیے اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ ہر وقت اور ہر حال میں وہ زبان سے بھی ذکر کرے لیکن یہ واقعہ ہے کہ اللہ کے جن بندوں کا یہ حال ہوتا ہے اُن کی زبانیں بھی ذکر اللہ سے تر رہتی ہیں اور یہ حال ( کہ ہر وقت اللہ کا اور اُس کے حکموں کا خیال رہے اور غفلت نہ ہونے پائے) عمومًا اُن ہی بندگانِ خدا کا ہوتا ہے جو زبانی ذکر کی کثرت کے ذریعہ دِل و دماغ میں یاد اور دھیان کی مستقل کیفیت پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ سے اپنے قلبی تعلق کو بڑھا لیتے ہیں اِس لیے ذکر لسانی (یعنی زبانی ذکر) کی کثرت بہر حال ضروری ہے۔ اِس زمانے کے بعض پڑھے لکھے لوگوں کو یہ سخت غلط فہمی ہے کہ وہ زبان سے اللہ کے ذکر کی کثرت کو ایک بے فائدہ عمل سمجھتے ہیں حالانکہ رسول اللہ ۖ کی اَحادیث میں صراحتاً اِس کا حکم ہے اور حضور ۖ نے اِس کی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضور ۖ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! اِسلام کے اَحکام بہت ہیں آپ مجھے ایسی کوئی چیز بتا دیجیے جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں(باقی صفحہ ٤٨ )