ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
چل دیا وہ حالِ دل سے بے خبر جان و دل کا ہے سفرجس کا سفر جس سے وابستہ تھیں میری راحتیں جانتا تھا میں جسے قلب و جگر کنج تنہائی کا میرے تھا رفیق مونسِ جاں تھا سفر ہو یا حضر مولوی اَحمد سعید خوش لقا واعظ آتش جادُو اَثر شیرِ دِل ، کانِ مروت ، سیر چشم پیکر صدق و وفا والا گہر ناظم جمعیة اعلامِ ہند تجربہ کار و اَمین و باخبر چھوڑ کر زِنداں میں مجھ کو چل دیا پھیر لی اُنس و محبت کی نظر تیری فرقت کا تصور الغیاث اَلحذر تیری جدائی اَلحذر تیرے دم سے قید خانہ باغ تھا اور ترے اَخلاق تھے اُس کے ثمر چونکہ راضی بالقضا ء تھا اِس لیے قید کا مطلق نہ تھا تجھ پر اَثر تھی بہ دولت تیرے بزم عیش گرم جیل میں دِن رات اور شام و سحر مِلک تیری دوستوں پر وقف تھی جان بھی دیتا کوئی لیتا اگر رُعب و ہیبت سے تری اے مرد ِ حق فوج باطل ہوگئی زیرو و زبر ہیبت ِ حق تیرے چہرے سے عیاں لرزہ بر اَندام تجھ سے شیر نر یہ حقیقت ہے کہ کرتی ہے تیری خوش بیانی دِل میں پتھر کے اَثر بے شبہ ہے تیری تقریر بلیغ دِل نشینی میں کنَقشٍ فی الحجر باغِ جمعیة مساعی سے تیری سبز و شاداب و شگفتہ پُر ثمر تیرا دِل ہے مال و زَو سے بے نیاز فضلِ حق پر رہتی ہے ہر دم نظر دیکھ کر قربانیاں تیری ہمیں یاد آتے ہیں خلیل نامور حق ترا حامی ہو اور طالع سعید اور قدم چومے ترے فتح و ظفر ہو تری اَولاد تیری جانشین مثل تیرے بلکہ فائق ہوں پسر