ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
جہاں کھیت اور کاشت کا نام نہیں، اُس کو اگر اَنصاری کی جائیداد مل بھی گئی تواپنی زندگی میں یہ اِنقلاب پیدا کرنا مشکل تھا کہ وہ کاشتکار بنتا ہل جوتتا اور کھیتوں کو سیراب کرتا۔ یہ حضراتِ اَنصار کا مخلصانہ اِیثار تھا کہ اُنہوں نے اپنی جائیدادوں اور باغوں کا آدھا حصہ دیا اور یہ بھی طے کردیا کہ کاشت کا تمام کام وہ کریں گے حضراتِ مہاجرین کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اَلبتہ آمدنی آدھی اُن کی خدمت میں پیش کردی جائے گی۔ موضو عِ کلام سے کسی قدر ہٹ کریہ عرض کرنا غیر مناسب نہ ہوگا کہ حضراتِ اَنصار (باشندگانِ مدینہ) جن کے لیے اِیثار کر رہے تھے وہ بھی سیاسی رنگروٹ ١ نہیں تھے، یہ وہ تھے جن کو محمد رسول اللہ ۖ کا فیض ِ تربیت اَعلیٰ اَخلاق سے آراستہ کرچکاتھا۔ حضراتِ اَنصار کے اِیثار کے جواب میں اِن مہاجر بزرگوں نے کامیابی کے جھنڈے نہیں لہرائے جلوس نہیں نکالے، شکریہ کی رسمی تجویزیں نہیں پاس کیں بلکہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جیسے بزرگوں نے اپنے اَنصاری بھائی سے کہا آپ کے اِخلاص کا شکریہ مجھے ایسا بازار بتا دیجیے جو زیادہ چلتا ہو، اَنصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اُن کو قبیلہ قَیْنُقَاعْ کے بازار میں پہنچا دیا، (یہ وہاں بظاہر خوانچہ لگا کر بیٹھ گئے) اور دن بھر اِتنے دام کمالیے کہ شام کو جب واپس ہوئے تو اَنصاری بھائی کے لیے کچھ پنیر اور کچھ گھی بھی خرید کرلیتے آئے۔ (بخاری شریف ص ٢٧٥ ) دورِ حاضر کی تہذیب جس کو اپنی ترقی پرناز ہے اِن نو واردوں کو جو کسی سیاسی قانونی اِستحقاق کے بغیر باشندگانِ مدینہ کی اِملاک میں حصہ دار بن گئے تھے اگر کسی وجہ سے اِخراج کا حکم نہ دیتی مگرجائیدادوں کی تقسیم کی چَسک ٢ اور ٹیس اُن کے دِلوں کو ضرور تڑپاتی رہتی اور اِس بناپر ناممکن تھا کہ اُن کے دلوں میں مہاجرین سے محبت پیدا ہوتی لیکن اَخلاقی تربیت کی یہ برکت تھی کہ اُن حضرات کے دِلوں میں مہاجرین سے محبت ہی نہیں بلکہ عقیدت قائم ہوگئی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہوئی تو اُن کے اَنصاری بھائی کی بیوی حضرات اُم العلاء کو یقین تھا کہ ایسا مقدس بزرگ یقینا ١ Recruit کا مورد ،نیا سپاہی،نو آموز ٢ ہلکا درد