ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2015 |
اكستان |
|
اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی عزت کا مستحق ہے وہ صدمہ کا اِظہار کرتے ہوئے فرما رہی تھیں شَھَادَتِیْ عَلَیْکَ لَقَدْ اَکْرَمَکَ اللّٰہُ میں شہادت دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں یقینا عزت بخشی ہے۔ ٣ھ میں غزوہ بنو نضیر ہوا ،اِس موقع پر بنونضیر کی ضبط شدہ جائیدادیں آنحضرت ۖ کے حوالے ہوئیں، اُصولاً آنحضرت ۖ کو حق پہنچتا تھا کہ اُن کو ذاتی مِلک قرار دے لیتے یا اپنے خاندان کے لیے مخصوص کر دیتے مگر آپ نے اُن جائیدادوں کی تقسیم کا فیصلہ فرمایا اور یہ پورا تعلقہ ١ حضراتِ مہاجرین کو تقسیم کردیا۔ اِس موقع پر حضراتِ اَنصار نے جس اِیثار کا ثبوت دیا وہ بھی ناقابلِ فراموش حقیقت ہے یہ اَنصار تقریباً ڈھائی سال سے مہاجرین کے مصارف برداشت کر رہے تھے، دورِ حاضر کی روشن تہذیب جو ہمدردی نوعِ اِنسان کی بلندبانگ دعویٰ دار ہے اگر وہ کار فرما ہوتی تو اَنصار کا مطالبہ یہ ہوتا کہ یہ ضبط شدہ جائیداد مصارف کے عوض میں اُن کے حوالے کی جائے، یہ یہاں کے اصل باشندے بھی ہیں اور تین سال سے پوری جماعت کا خرچ بھی بر داشت کر رہے ہیں لیکن اِس کے بر عکس جب آنحضرت نے یہ اِرادہ ظاہر فرمایا کہ یہ تعلقہ مہاجرین میں تقسیم کردیا جائے گا اور جو جائیدادیں بھائی چارے کی بنا پر اَنصار نے مہاجرین کو دی تھیں وہ اُن کو واپس کردی جائیں تو تاریخ نے وہ الفاظ محفوظ کرلیے جو حضرات ِ اَنصار نے عرض کیے تھے لاَ، بَلِ اقْسِمْ ھٰذِہ فِیْہِمْ، وَاقْسِمْ لَھُمْ مِنْ اَمْوَالِنَا مَاشِئْتَ ''نہیں حضرت یہ نہیں ہوگا، بنو نضیر کی تمام جائیداد حضرات ِ مہاجرین ہی کو دے دیجیے اور نہ صرف یہ جائیداد بلکہ ہماری طرف سے آپ کو اِختیار ہے کہ خود ہماری جائیدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں اُن کو عنایت کردیں۔ ''( تاریخ المدینة لابن شبة ج٢ ص ٤٨٨ ) یہی حضرات ِاَنصار ہیں جنہوں نے دُوسرے موقع پر یہ بھی فرمایا تھا کہ جو کچھ آپ لیں گے وہ اِس سے بہت بہتر ہوگا جو ہمارے پاس رہ جائے گا۔ (سیرة اِبن ہشام وغیرہ) ١ ملکیت، جائیداد