ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
اور اگر کوئی ایسا وقت ہو کہ اللہ و رسول ۖ پر اِیمان رکھنے والی جماعت کے ہاتھ میں اِجتماعی قوت اور طاقت ہو اور اللہ کے دین کی حفاظت اور نصرت کے مقصد کا تقاضا یہی ہو کہ اُس کے لیے اِجتماعی طاقت اِستعمال کی جائے تو اُس وقت اللہ کے مقرر کیے ہوئے قوانین کے مطابق دین کی حفاظت اور نصرت کے لیے طاقت کا اِستعمال کرنا جہاد ہے، لیکن اِس کے جہاد اور عبادت ہونے کی دو خاص شرطیں ہیں : ایک یہ کہ اُن کا اِقدام کسی ذاتی یا قومی مفاد کی غرض سے یا زیادتی یا قومی تعصب ودُشمنی کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اَصل مقصد صرف اللہ کے حکم کی تعمیل اور اُس کے دین کی خدمت ہو۔ دُوسرے یہ کہ اُس کے قوانین کی پوری پابندی ہو۔ اِن دو شرطوں کے بغیر اگر طاقت کا اِستعمال ہوگا تو دین کی نظر میں وہ جہاد نہیں فساد ہوگا۔ اِسی طرح ظالم و جابر حکمرانوں کے سامنے (چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا غیر مسلموں میں سے) حق بات کہنا بھی جہاد کی ایک خاص قسم ہے جس کو حدیث شریف میں ''اَفضل الجہاد' فرمایا گیا ہے۔ دین کی کوشش اور حمایت وحفاظت کی یہ سب صورتیں (جن کا ابھی ذکر ہوا) اپنے اپنے موقع پر یہ سب اِسلام کے فرائض میں سے ہیں اور جہاد کا لفظ (جیسا کہ ہم نے اُوپر بتلایا) درجہ بدرجہ اِن سب کو شامل ہے، اَب اِس کی تاکید اور فضیلت کے متعلق چند آیتیں اور حدیثیں اور سن لیجئے : (وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ ) (سُورة الحج : ٧٨ ) ''اور کوشش کرو اللہ کی راہ میں جیسا کہ اُس کا حق ہے، اُس نے (اپنے دین کے لیے) تم کو منتخب کیا ہے۔ '' ( یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَةٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ o تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ) (سُورة الصف : ١٠ تا ١٢ )