ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2015 |
اكستان |
|
اِسی طرح اَطبائ، فلاسفہ وغیرہ نے اپنے اپنے مذاق کے بموجب مختلف عبارتوں سے اِس سوال کا جواب دیا ہے۔ اور یادش بخیر مسٹر ڈارون کا خیال یہ ہے کہ '' اِنسان در حقیقت بندر تھا جو ترقی کرتے کرتے اِس حد تک پہنچ گیا۔'' اِرتقائی مدارج نے اِس کی دُم غائب کردی اور اُس کے قد کو سیدھا کردیا ! ! ! ! ! جدید فلاسفہ کی تحقیق ہے کہ '' اِنسان اِبتداء میں ایک کیڑا ہوتا ہے جو نشوو نما پاتے پاتے اِنسان بن جاتا ہے۔'' مگر علمائِ تصوف و سلوک کا جواب سب سے زیادہ دلچسپ اور کار آمد ہے، علمائِ حقیقت فرماتے ہیں کہ ''یہ ایسی مخلوق ہے جس میں جانوروں کی خواہشات اور فرشتوں کے مَلکات کو یکجا کر دیا گیا ہے۔ '' علمائِ سلوک کا یہ جواب اُن کے مخصوص مذاق کا آئینہ دار ہے علمائِ سلوک اور تصوف کا کام یہی ہے کہ وہ رذیل اور کمینہ اَخلاق سے رُوح کو پاک و صاف کریں اور اعلیٰ اَخلاق بلند ترین فضائل کو اِس طرح فطرت ِ اِنسانی کے ساتھ پیوست کر دیں کہ وہ طبیعت ِثانیہ بن جائیں۔ جانوروں کی خواہشات کے لیے اِصطلاحی لفظ '' بہیمت'' ہے اور فرشتوں کے ملکات کو ''مَلکوتی صفات'' سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس حقیقت کی دُوسری تعبیر یہ بھی ہے کہ '' اِنسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کو خیر اور شر سے مرکب کیا گیا ہے۔'' حقیقت یہ کہ ہم اِصلاح اور تزکیہ نفس کا اُونچا مقصد سامنے رکھ کر اِنسان پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم اِبتداء میں نو زائیدہ بچہ کو اِس طرح بے حس اور عقل و شعور سے خالی پاتے ہیں جس طرح اور حیوانات کے بچے، اُن کے تمام اِحساسات اور تخیلات کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ بھوک لگے تو رو لیں، پیٹ بھر جائیں