ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
ہڈیوں کو آواز دی، وہ ہڈیاں جواب دیتے ہی کھڑی ہوگئیں اور ایک بڑی جسیم شکل اِختیار کر گئیں پھر اُن پر گوشت پوست اور بال چڑھ گئے۔پھر فرشتے نے اللہ کے حکم سے گدھے کی رُوح کو واپس آنے کا حکم دیا سو وہ بھی لوٹ آئی اور گدھا اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور دُم ہلاتے ہوئے رینگنے لگا،۔ جب حضرت عزیر علیہ السلام نے یہ منظر دیکھا تو اِستغفار اور تسبیح و تحمید کرتے ہوئے سجدے میں گر گئے پھر دِل ہی دِل میں گویا ہوئے : ( اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْر)(سُورة البقرہ : ٢٥٩) ''مجھ کو معلوم ہے کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔'' پھر حضرت عزیر علیہ السلام اپنی جگہ سے اُٹھ کر گدھے پر سوار ہوئے اور قبرستان سے نکل کر اپنی بستی کا رُخ فرمایا ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے چاہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کو لوگوں کے لیے نشان اور موت کے بعد زندگی کا جیتا جاگتا معجزہ بنائیں، جب حضرت عزیر علیہ السلام مغرب کے قریب اپنی بستی میں داخل ہوئے تو آپ اپنی بستی میں واقع ہونے والی بڑی بڑی تبدیلیاں دیکھ کر دہشت زدہ ہوگئے، نہ صرف مکانات اور گلیاں بدل چکی تھیں بلکہ لوگوں کے چہرے بھی بدل گئے تھے، جس طرح آپ کسی کو نہیں پہچان رہے تھے اِسی طرح کوئی آپ کو نہیں پہچان سکا۔ آپ راستہ پہچانے بغیر بستی میں اِدھر اُدھر اپنے گدھے کو ہانکنے لگے حتی کہ ایک نابینا بڑھیا لاٹھی ٹیکتی ہوئی آپ کے سامنے آگئی، آپ اُس کے قریب پہنچے اور دریافت فرمایا اے اللہ کی بندی ! کیا آپ جانتی ہیں کہ عزیر کا گھر کہاں ہے ؟ بڑھیا نے آپ کو جواب دیا : عزیر ! اِس بستی میں کوئی بھی ایسا نہیں رہا جسے عزیر یاد ہوں۔ وہ ایک بار اِس بستی سے نکلے تھے اور پھر لوٹ کر نہیں آئے اور اِس بات کو سو سال ہونے کو آئے ہیں لیکن آپ یہ بتائیے کہ آپ کون ہیں ؟ اور آپ عزیر علیہ السلام کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں جنہیں لوگ فراموش کر چکے ہیں تو حضرت عزیر علیہ السلام نے اُس سے فرمایا اللہ کی بندی ! میں عزیر ہی ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے سو سال کے لیے موت دی تھی اور پھر مجھے زند