ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
میں منتشر ہیں۔(ملاحظہ ہو :ج١ ص ٢٢٢، ج٢ ص ٣، ج٢ ص ١٤٥، ج٣ ص ٣٣٤، ج٣ ص ٤٥٢، ج٤ ص ٥٠٩، ج٤ ص ٥٢٦) آپ نے ''نسمہ'' اور ''رُوح'' کایہ فرق بیان فرمایا کہ ''نسمہ'' کے متعلق وِلادت کا لفظ آیا ہے مثلاً مَامِنْ نَسَمَةٍ مَوْلُوْدَةٍ ۔رُوح کے متعلق نفخ اور خلق کا لفظ آیا ہے ولادت کا لفظ نہیں آیا ہے، پھر فرماتے ہیں کہ نفخ کے بعد جب رُوح کا تعلق بدن سے ہوتا ہے تو وہ بدن کے بھی حالات اَخذ کر لیتی ہے اِس اَخذ و اِکتساب کے سبب سے رُوح کے خواص میں بھی تبدیلی آجاتی ہے۔ پھر فرماتے ہیں : ایک ہی چیز ہے مگر اُس کے مراتب مختلف ہیں، سب سے کم درجہ وہ ہے جس کو ''نسمہ'' کہا جاتا ہے ،پھر تعلق ِ بدن سے قطع نظر کر کے اُس کو باری تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اُسی کا نام ''رُوح'' ہوتا ہے۔ ''( فیض الباری ج ٤ ص ٥٢٦ ) (مزید اِمتیاز کے لیے اِس کو ''رُوحِ اِلٰہی'' یا '' رُوحِ قدسی'' کہہ دیا جاتا ہے) اور یہی رُوح کہ جب اُس کا تعلق بدن سے ہوتا ہے تو اُس تعلق اور نسبت سے اُس کو'' نفس '' کہا جاتا ہے جیسے مثلاً پانی جب تک اَلگ ہے پانی ہے اور جب درخت اُس کو جذب کر لیتا ہے تواَب اُس کو پانی نہیں کہاجاتا، اور پانی کے اَحکام جواز وغیرہ بھی اُس پر نافذ نہیں ہوتے۔ (فیض الباری ٢/ ١٤٥ ) (لیکن یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ کنویں کا پانی جو گلاس میں ہے اور مثلاً تربوز کا پانی اِن دونوں کو ایک کہا جائے گا یا اَلگ اَلگ تو اگرچہ ''رقیق اور سیال'' ہونے کے لحاظ سے دونوں ایک ہیں لیکن دُوسرے اَوصاف کا اِتنا فرق ہے کہ اُن کو ایک کہنا سرا سر تکلف ہے) چنانچہ دُوسرے موقع پر حضرت موصوف فرماتے ہیں : ''رُوح، نسمہ اور ذرّہ اَلگ اَلگ چیزیں ہیں، ایک ہی حقیقت کی مختلف تفسیریں نہیں ہیں۔ '' نیز فرماتے ہیں :