ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
فرمایا۔ یہ سن کر بڑھیا پر دہشت طاری ہوگئی اور اُس نے اِس بات کو سچ نہ سمجھا، وہ بولی میں عزیر کے گھر میں ملازمہ تھی اور میں جانتی ہوں کہ عزیر متقی پر ہیز گار اور مستجاب الدعوات آدمی تھے، اگر آپ عزیر ہیں تو اللہ سے دُعا کیجئے کہ وہ میری بینائی لوٹادے تاکہ میں آپ کو دیکھ سکوں اور پہچان سکوں اور آپ کی تصدیق کر سکوں چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام نے اُس کی بینائی کے لیے دُعافرمائی، اللہ نے دُعا قبول فرما کر اُس کی بصارت لوٹادی، پس بڑھیا نے آپ کو پہچان لیا اور تصدیق کی کہ آپ عزیر ہی ہیں پھر اُس نے آپ کو ساتھ لیا اور آپ کے ایک پوتے کے گھر کی طرف چل پڑی اور دروازہ کھٹکھٹایا، جب درازہ کھولا گیا تو یہ ملازمہ چیخ کر کہنے لگی : یہ عزیر علیہ السلام ہیں جو تمہارے پاس واپس آچکے ہیں، تمام گھر والے اُنگشت بدنداں رہ گئے اور آپ کے گرد اَکٹھے ہوگئے۔ پھر آپ کے پوتے نے کہا اے بڑھیا ! تم کیا کہہ رہی ہو ؟ عزیر تو ایک صدی سے غائب ہیں جیسا کہ ہمیں اپنے والد صاحب سے معلوم ہوا تھا۔ بڑھیا بولی کیا میں تمہاری بوڑھی خادمہ نہیں تھی ؟ اِنہوں نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور اللہ تعالیٰ نے میری نظر لوٹادی۔ اور جب میں نے دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ عزیر علیہ السلام ہیں وہی عزیر جو ہماری بستی سے جا چکے تھے، زمانہ گزرنے کے ساتھ آپ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آپ کے پوتے نے آپ سے کہا کہ مجھے والد صاحب سے معلوم ہوا تھا ہمارے دادا حضرت عزیر متقی اور پرہیزگار شخص تھے اور توراة آپ کو زبانی یاد تھی اور آپ اُس کی آیات بڑی نرم آواز میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ اگر آپ واقعتا عزیر ہی ہیں تو ہمیں کچھ آیات سنائیے چنانچہ حضرت آپ نے توراة کی آیات تلاوت فرمائیں تو سب آپ کی نرم آواز سے آپ کو پہچان گئے اور تصدیق کی کہ آپ عزیر علیہ السلام ہی ہیں اور یہ بھی تسلیم کیا کہ اللہ نے آپ کو سو سال کے لیے موت دے کر دوبارہ زندہ فرمایا ہے تاکہ لوگوں کو اپنی قدرت کی نشانی اور دلیل دِکھائیں۔ (باقی صفحہ ٦٤ )