ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
کرتے ہیں، اِس عمل کو عامِل حضرات کی اِصطلاح میں'' حاضرات ''کہا جاتا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) نفس : تحریر بالا میں ''رُوح ہوائی'' ''نسمہ'' ''ذرّہ'' اور ''رُوح'' کا تذکرہ آگیا مگر'' نفس'' کے متعلق حضرت علامہ کشمیری کی ایک تقریر میں مختصر تذکرہ آیا اور حضرت شاہ ولی اللہ قدس اللہ سرہ العزیز کی تحریر میں مختصر تذکرہ بھی نہیں ہے حالانکہ قرآنِ شریف میں نفس کا تذکرہ بہت جگہ ہے اور بڑی اہمیت کے ساتھ ہے مثلاً ( وَمَآاُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَ مَّارَة بِالسُّوْئِ )(سُورۂ یوسف)( نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی )(سُورة النازعات)( یٰآاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ )(سُورة الفجر) تو اِس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ نفس الگ چیز نہیں بلکہ بقول حضرت علامہ کشمیری رُوح کا نام ہی نفس ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ رُوح کا تعلق جب بدن سے ہوتا ہے تو اُس تعلق کے لحاظ سے اِس کو نفس کہا جاتا ہے۔ اِبن قیم بھی اِسی کے قائل ہیں اور حضرات ِ صوفیاء بھی۔ اَب اِس تعلق کی بناء پر یہی ایک الگ چیزبن جاتا ہے یعنی وہ شان باقی نہیں رہتی جو رُوح مجرد کی ہے (حقیقت فردانیہ و نقطۂ رُوحانیہ) بلکہ (ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ )کی صورت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے تہذیب اور تزکیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور تہذیب و تزکیہ کے لحاظ سے نفس کے چار درجے ہوتے ہیں۔ (١) ''تہذیب الظاہر'' یعنی صوم و صلوة وغیرہ فرائض اور اَحکام ِ شریعت کی پابندی سے اِس کا ظاہر مہذب اور مُزَکّٰی ہوجائے۔ (٢) ''تہذیب الباطن'' کہ ملکات ردیہ اور اَخلاقِ ذمیمہ ختم ہوجائیں اور مکارمِ اَخلاق ملکہ اور ذاتی جذبہ بن جائیں۔ (٣) تَحَلِّی النَّفْسِ بِالصُّوْرَةِ الْقُدْسِیَّةِ (٤) فَنَائُہَا عَنْ ذَاتِہَا بملاحظہ جلال رب العالمین جل جلالہ