ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
جیسے ''ضَاحِکْ'' یا '' بَادِی الْبَشْرِ '' اِنسان کے لیے۔ پس مذکورہ بالا تعریف کو ''حد'' نہیں کہا جا سکتا بلکہ منطقی اِصلاح میں اِس کو ''رسم'' کہا جائے گا ''حد'' (جیسے اِنسان کی حد حیوانِ ناطق ہے) وہ بھی نامعلوم رہی کیونکہ اَجزاء ماہیت کا علم نہیں ہوا کیونکہ اِنسان میں اَجزائِ ماہیت کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے کیونکہ اُس کو جوعلم میسر آیا وہ قلیل ہے، مشاہدات سے بالا حقائق کے بیان کے لیے اُس کے پاس الفاظ ہی نہیں ہیں، جن کا علم بھی اِنسان کو نہیں ہے اُن کے لیے الفاظ کہاں سے آئیں گے ؟ اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف نفی سے کرایا یعنی ( لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْئ) اِس کے علاوہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کے متعلق علم ہے کہ حَیّ، قَیُّوْم ، عَلِیْم، حَکِیْم، قَادِر وغیرہ یہ سب اَوصاف ہیں اُس کی کنہ اور حقیقت پھربھی نہ معلوم ہے۔ یہود کا اِطمینان اور ہاتھ چومنا : قابلِ توجہ یہ ہے کہ علماء یہود جو اِمتحان لینے آئے تھے وہ آنحضرت ۖ کے اِسی جواب سے اِتنے مطمئن ہوگئے کہ آپ کے ہاتھ چومے اور اپنے اِیمان نہ لانے کا ایک ایسا عذر پیش کیا جو اگرچہ خود اُن کا اِختراع کردہ تھا مگر بہرحال اُن کے نزدیک عذر تھا کہ ہمیں یہ ہدایت ہے کہ ہم اِسی نبی پر اِیمان لائیں جوبنی اسرائیل میں سے ہے یا یہ کہ (اِنَّ اللّٰہَ عَھِدَ اِلَیْنَا اَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُ) ١ ''اللہ تعالیٰ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اُس وقت تک اِیمان نہ لائیں جب تک وہ ایسی قربانی نہ پیش کردے جس کو آگ کھا جائے۔'' مقصد یہ ہے کہ علمائِ یہود نے اِس جواب کی تردید نہیں کی بلکہ اِس جواب کو معیارِ نبوت سمجھا، جس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ خود اَنبیاء بنی اِسرائیل نے رُوح کے متعلق یہی بتایا تھا جو آپ نے وحی اِلٰہی کے بموجب بتایا۔ ١ سُورہ آلِ عمران : ١٨٣