ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
''مطلب یہ ہے کہ اِنسان کی موت کے بعد اِس نسمہ میں ایک نئی زندگی (نشاة اُخریٰ) وجود پزیر ہوئی ہے اور حس ِمشترک کا جو حصہ باقی رہ جاتا ہے، ''رُوح اِلٰہی'' کا فیض اس میں وہ قوت پیدا کرتا ہے جو سمع بصراور کلام کے لیے کافی ہوسکے اور یہ عالمِ مثال یعنی اُس قوت کی مدد سے ہوتا ہے جو مجرد اور محسوس کی درمیانی قوت ہے جو شے واحد کی طرح (فضاء بالا) میں پھیلی ہوئی ہے۔ '' بدن میں ایک اور جوہر : مختصر یہ کہ بدن میں ''رُوحِ طبی'' کے علاوہ ایک اور جو ہر ہے جو بدنِ اِنسان کی خاص صلاحیت سے وجود میں آتا ہے، موت کے وقت بدنِ اِنسان سے جدا ہوجاتا ہے مگر فنا نہیں ہوتا، اِس درجہ میں اُس کا وجود ضرور باقی رہتا ہے کہ ''رُوحِ اِلٰہی'' اور ''رُوحِ قدسی'' سے اُس کا رابطہ باقی رہ سکے ، مرنے کے بعد ''رُوحِ اِلٰہی'' کے فیض سے ''نسمہ'' میں نیا نشوو نما شروع ہوجاتا ہے اور اُس میں وہ قوت آجاتی ہے کہ بواسطۂ حس ِمشترک، سمع، بصر اور کلام کے لیے کافی ہو سکے۔ ایک خاص قوت جو مجرد اور محسوس کی درمیانی کڑی ہوتی ہے بالائی فضا میں پھیلی ہوئی ہے اُس کو عالمِ مثال کہا جاتا ہے، ''نسمہ'' میں جوقوت پیدا ہوتی ہے وہ اُسی عالمِ مثال کا فیض ہوتا ہے۔ ''نسمہ'' کے بعد ایک حقیقت ِفردانیہ اور نقطۂ رُوحانیہ ہے جو اِن فیوض اور اِفادات کے لیے جو عالمِ بالا سے ''نسمہ'' کو عطا ہوتے ہیں روشندان کا کام دیتا ہے جس کا تعلق ''نسمہ'' پھر ''رُوحِ طبی'' کے واسطہ سے بدنِ اِنسانی سے بھی ہوتا ہے اُس کو ''رُوحِ حقیقی'' یا ''رُوحِ قدسی'' یا ''رُوحِ اِلٰہی'' کہا جاتا ہے، یہ رُوح ہے کہ قرآنِ حکیم جس کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب) حضرت علامہ مولانا محمد اَنور شاہ صاحب کشمیری : اُستاذ محترم حضرت علامہ کشمیری صاحب رحمة اللہ علیہ بخاری شریف کے درس میں موقع بموقع رُوح، نسمہ اور نفس وغیرہ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے، آپ کے یہ اِفادات فیض الباری کے مختلف صفحات