ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
اِس کی توجیہہ آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جب مذاہب کا تعلق وحی اور نبوت سے ہے اُن سب کا متفقہ عقیدہ رُوح کے متعلق یہی ہے کہ ( مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ) یعنی اِس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا جا سکتا کہ وہ عالم ِ اَمر کی ایک حقیقت ہے۔ یہ ہے اِرشادِ ربانی کا اِشارہ، اِسی کو اِسلام کا نقطۂ نظر کہا جا سکتا ہے۔ مشابہت ِ رُوح : لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ''بدنِ اِنسان'' میں اِس رُوح کے علاوہ اور بھی کچھ جو ہر ہیں جو رُوح سے خاص تعلق رکھتے ہیں حتی کہ اُن کو بھی رُوح کہا جاتا ہے۔ اُن کی وضاحت سیّدنا حضرت شاہ ولی اللہ قدس سرہ کے بیان سے ہوتی ہے جس کا مختصر خلاصہ یہاں اُردو میں پیش کیا جا رہا ہے، باب حقیقة الروح حجة اللّٰہ البالغة میں آپ فرماتے ہیں : یہ بات تو پہلی ہی نظر میں معلوم ہوجاتی ہے کہ ''رُوح'' مبدأ حیات اور مدارِ زندگی ہے، نفخ رُوح ہوتا ہے تو زندگی شروع ہوجاتی ہے اور بدن سے اُس کے جدا ہوجانے کا نام موت ہے پھر دریافت ِحقیقت کی طرف ذہن متوجہ ہوجاتا ہے تو ہمارا اِحساس سب سے پہلے ایک بخار لطیف (گیس یا سٹیم) کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو بدنِ اِنسانی کے اَخلاط کا خلاصہ اور جو ہر ہوتا ہے وہ قلب میں پیدا ہوتا ہے (سب سے پہلے رحمِ مادر کے اَخلاط نے اُس کو جنم دیا، پھر یہ اِنسان کی غذا کے آخری ہضم کا نتیجہ ہوتا ہے) اِنسان جو کچھ کھاتا پیتا ہے اُس کا تدریجی ہضم پہلے اُس کو خون کی شکل دیتا ہے اور خون سے یہ جو ہرِ لطیف یا بخارِ لطیف پیدا ہوتا ہے جس کو رُوح سمجھا جاتا ہے یہ بدنِ اِنسانی کی اَندرونی قوتوں مثلاً قوتِ حاسہ، قوتِ مدر کہ اور قوتِ مدبرہ للغذاء کا حامِل ہوتا ہے۔ اِس بخارِ لطیف کی مختلف کیفیات کا اَثراِن قوتوں پر پڑتا ہے اور اِن قوتوں کی مختلف کیفیات اِس بخارِ لطیف پر اَثر اَنداز ہوتی ہیں، یہاں تک کہ جب یہ قوتیں اپنا عمل صحیح طور پر نہیں کرتیں تو اُس بخار لطیف کے بننے اور پیدا ہونے میں فرق آجاتا ہے۔ اِنتہا یہ کہ یہ بخارِ لطیف یا سٹیم بجھ جاتی ہے تو شمع ِحیات بھی گُل ہوجاتی ہے۔ بدنِ اِنسانی میں اِس بخار لطیف کی مثال ایسی ہے جیسے گلاب کے پھول میں عرقِ گلاب یا جیسے لکڑی کے کوئلہ میں سُلگن