ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
(٢) اُس کی پیدائش اُس مادّہ سے نہیں ہوئی جس سے اِنسان اور حیوانات یا جن و شیاطین کی پیدائش ہوئی ہے یعنی وہ مادّی نہیں ہے۔ (٣) باری تعالیٰ پیدا کرنے یعنی اِحداث واِبداع میں مادّہ کا محتاج نہیں ہے اُس کی شان یہ ہے (اِنَّمَآ اَمْرُہ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ) یعنی جو چیز علمِ اِلٰہی میں تھی اُس کو خطاب ہوا '' کُنْ '' وہ درجۂ کون میں آگئی یعنی موجود ہوگئی۔ (٤) اِس کی دُوسری تعبیر یہ بھی ہے کہ رُوح کا تعلق ''عالمِ اَمر'' سے ہے ،عالَمِ اَمر کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ وہ عالَم جو مشاہدہ سے بالا ہے، شیخ اَکبر نے تعریف یہ کی کہ ( مَا خَلَقَ اللّٰہُ بِلَا وَاسِطَةٍ فَھُوَ عَالَمُ الْاَمْرِ وَمَا خَلَقَ الشَّیْیَٔ مِنْ شَیْیئٍ فَھُوَ عَالَمُ الْخَلْقِ فَالرُّوْحُ مِنْ عَالَمِ الْاَمْرِ لِکَوْنِھَا مَخْلُوْقَةً بِلَا وَاسِطَةٍ بِخِلَافِ الْجِسْمِ فَاِنَّہ مِنَ الْعَنَاصِرِ) (فیض الباری ج٤ ص ٥٢٦) خلق ِ سمٰوات کے متعلق اِرشادِ ربانی ہے : ( ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآئِ وَھِیَ دُخَان فَقَالَ لَھَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِیَا طَوْعًا اَوْ کَرْہًا ط قَالَتَآ اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ ) (سُورہ حم السجدہ : ١١) یعنی (خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ ) کی صورت یہ ہوئی کہ صرف لفظ ''کن ''کی بناء پر اُن کا خلق نہیں ہوا بلکہ پہلے ایک ''دُخان ''تھا جس کو آج کل کی اِصطلاح میں' 'اسٹیم'' یا ''اِیتھر'' کہہ سکتے ہیں آسمان اور زمین کی جو صورت علم ِ اِلٰہی میں تھی اُس کو حکم ہوا ( اِئْتِیَا )وجود میں آجاؤ ،اُنہوں نے جواب دیا (اَتَیْنَا طَآئِعِیْنَ) ( ہم آئے خوشی سے ) ۔ اِسی طرح اِنس وجن کے متعلق اِرشادِ ربانی ہے : (وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍٍ o وَالْجَانَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ)(سُورة الحجر : ٢٦،٢٧) اِسی طرح پیدائش ِرُوح کے لیے کسی مادّہ کو کام میں نہیں لایا گیا بلکہ براہِ راست اُس صورت کو جو علمِ اِلٰہی کے خزانہ ٔ بے پایاں میں تھی حکم ہوا ''کن'' پس وہ وجود میں آگئی۔