ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
نے پوری اِیمانی جرأت سے جواب دیا : ( فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا o اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا)(سُورہ طٰہٰ : ٧٢،٧٣ ) ''تجھے جو حکم دینا ہو دے ڈال، تو اپنا کام بس اِس چند روزہ زندگی ہی میں تو چلا سکتا ہے اور ہم تو اپنے سچے رب پر اِیمان اِس لیے لائے ہیں کہ وہ (آخرت کی اَبدی زندگی میں) ہمارے گناہ بخش دے۔ '' اور اِس سے بھی زیادہ سبق آموزواقعہ خود فرعون کی بیوی کا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ فرعون مصر کی بادشاہت کا گویا اَکیلا مالک و مختار تھا اور اُس کی یہ بیوی ملک ِمصر کی ملکہ ہونے کے ساتھ خود فرعون کے دِل کی بھی گویا مالک تھی، بس اِس سے اَندازہ کیجئے کہ اُس کو دُنیا کی کتنی عزت اور کیسا عیش حاصل ہوگا لیکن جب حضرت موسٰی علیہ السلام کے دین اور اُن کی دعوت کی سچائی اللہ کی اِس بندی پر کھل گئی تو اُس نے بالکل اِس کی پرواہ نہ کی کہ فرعون مجھ پر کیسے کیسے ظلم کرے گا اور دُنیا کی اِس شاہانہ عیش کے بجائے مجھے کتنی مصیبتیں اور تکلیفیں جھیلنی پڑیںگی۔ اَلغرض اِن سب باتوں سے بالکل بے پرواہ ہو کر اُس نے اپنے اِیمان کا اِعلان کردیا اور پھر حق کے راستہ میں اللہ کی اِس بندی نے ایسی ایسی تکلیفیں اُٹھائیں جن کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو یہ درجہ مِلاکہ قرآن شریف میں بڑی عزت کے ساتھ اِن کا ذکر کیا گیا اور مسلمانوں کے لیے اُن کے صبر اور اُن کی قربانی کو نمونہ بتلایا گیا ہے ،اِرشاد ہے : (وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ) (سُورہ تحریم : ١١ ) ''اور اِیمان والوں کے لیے اللہ تعالیٰ مثال بیان کرتا ہے فرعون کی بیوی (آسیہ) کی جبکہ اُس نے دُعا کی کہ اے میرے پروردگار ! تو میرے واسطے جنت میں