ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مئی 2015 |
اكستان |
|
جو تمہارا جی چاہے گا اور تمہیں وہ سب کچھ مِلے گا جو تم مانگو گے۔ یہ عزت مہمانی ہوگی تمہارے رب غفور و رحیم کی طرف سے۔ '' سبحان اللہ ! دین پر مضبوطی سے قائم رہنے والوں اور بندگی کا حق اَدا کرنے والوں کے لیے اِس آیت میں کتنی بڑی بشارت ہے، سچ تو یہ ہے کہ اگر جان ومال سب کچھ قربان کر کے بھی کسی کویہ درجہ حاصل ہوجائے تو وہ بڑا خوش نصیب ہے ۔ایک حدیث میں ہے : ''رسول اللہ ۖ سے ایک صحابی نے عرض کیا کہ حضرت مجھے کوئی ایسی کافی وافی نصیحت فرمائیے کہ آپ کے بعد پھر کسی سے کچھ پوچھنے کی حاجت نہ ہو، آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہو بس اللہ میرا رب ہے اور پھر اُسی پر مضبوطی سے جمے رہو (اور اُسی کے مطابق بندگی کی زندگی گزارتے رہو)۔ '' قرآن شریف میں ہماری ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفادار بندوں کے بڑے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیں جو بڑے سخت ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم رہے اور بڑے سے بڑا لالچ اور سخت سے سخت تکلیفوں کا ڈر بھی اُن کو دین سے نہیں ہٹا سکا۔ اُن میں ایک واقعہ تو اُن جادُو گروں کا ہے جنہیں فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے مقابلہ کے لیے بُلایا تھا اور بڑے اِنعام واِکرام کا اُن سے وعدہ کیا تھا لیکن خاص مقابلہ کے وقت جب حضرت موسٰی علیہ السلام کے دین کی اور اُن کی دعوت کی سچائی اُن پر کھل گئی تو نہ تو اُنہوں نے اِس کی پرواہ کی کہ فرعون نے جس اِنعام واِکرام اور جن بڑے بڑے عہدوں کا وعدہ ہم سے کیا ہے اُن سے محروم رہ جائیں گے اور نہ اِس کی پرواہ کی کہ فرعون ہمیں کتنی سخت سزادے گا، بہرحال اُنہوں نے اِن سب خطروں سے بے پرواہ ہو کر بھرے مجمع میں پکار کر کے کہہ دیا ( اٰمَنَّا بِرَبِّ مُوْسٰی وَ ہَارُوْنَ ) (یعنی ہارون اور موسٰی جس پرور دگار کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں ہم اُس پر اِیمان لے آئے) پھر جب خدا کے دُشمن فرعون نے اُن کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پاؤں کٹواکے سولی پر لٹکوا دُوں گا تو اُنہوں