ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
''رسول اللہ ۖ نے لعنت فرمائی رِشوت لینے والے اور دینے والے پر۔'' ایک حدیث میں یہاں تک ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''جس شخص نے کسی آدمی کے لیے کسی معاملہ میں (جائز) سفارش کی پھر اُس آدمی نے اِس سفارش کرنے والے کو کوئی تحفہ دیا اور اُس نے یہ تحفہ قبول کرلیا تو یہ بھی اِس نے بڑا گناہ کیا (گویا یہ بھی ایک طرح کی رِشوت اور ایک قسم کا سود ہے)۔'' بہرحال رِشوت اور سود کا لین دین اور تجارت میں دھوکہ بازی اور بے اِیمانی اِسلام میں یہ سب یکساں طور پر حرام ہیں اور اِن سب سے بڑھ کر حرام یہ ہے کہ جھوٹی مقدمہ بازی کے ذریعہ محض یا محض زبردستی کسی دُوسرے کی کسی چیز پر ناجائز قبضہ کر لیا جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ : ''جس شخص نے کسی کی زمین کے کچھ حصے پر ناجائز قبضہ کیا تو قیامت کے دِن (اُس کو یہ عذاب دیا جائے گا کہ) زمین کے اُس ٹکڑے کے ساتھ وہ زمین میں دھنسا دیاجائے گا یہاں تک کہ سب سے نیچے کے طبقے تک دھنستا چلا جائے گا۔'' ایک اور حدیث میں ہے کہ : ''جس شخص نے (حاکم کے سامنے) جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کی کسی چیز کو ناجائز طریقے سے حاصل کر لیا تواللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے دوزخ کی آگ واجب کر دی ہے اور جنت اُس کے لیے حرام کردی ہے۔ یہ سن کر کسی شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگرچہ وہ معمولی چیز ہو ؟ آپ ۖ نے اِرشاد فرمایا کہ ہاں ! اگرچہ وہ پیلو کے جنگلی درخت کی ایک ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔'' ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ۖ نے ایک مقدمہ باز کو آگاہ کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا : ''دیکھو ! جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی دُوسرے کا کوئی بھی مال ناجائز طریقے سے حاصل کرے گا وہ قیامت میں اللہ کے سامنے کوڑھی ہو کر پیش ہوگا۔'' (باقی صفحہ ٥٣)