ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2014 |
اكستان |
|
(وَیْلُ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ o الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ o وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَo اَلَا یَظُنُّ اُولٰئِکَ اَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَo لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ o یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) (سُورة المطففین : ١ تا ٦ ) ''اُن کم دینے والوں کے لیے بڑی تباہی (اور بڑا عذاب ہے) جو دُوسرے لوگوں سے جب ناپ تول کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب دُوسروں کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو کم دیتے ہیں کیا اُن کو یہ خیال نہیں ہے کہ وہ ایک بہت بڑے دِن اُٹھائے جائیں گے جس دِن کہ سارے لوگ جزا و سزا کے لیے رب العالمین کے حضور میں حاضر ہوں گے۔ '' دُوسروں کے حق اور دُوسروں کی اَمانتیں اَدا کرنے کے لیے خاص طور سے حکم مِلا ہے : ( اِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا) (سُورة النساء : ٥٨ ) ''اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ جن لوگوں کی جو اَمانتیں (اور جو حق) تم پر ہوں، وہ اُن کو ٹھیک ٹھیک اَدا کرو۔ '' اور قرآن شریف ہی میں دو جگہ اَصلی مسلمانوں کی یہ صفت اور پہچان بتلائی گئی ہے : ( وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانَاتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ )(سُورة المومنون : ٨ ) ''اور جو اَمانتوں کے اَدا کرنے والے اور وعدوں کا پاس رکھنے والے ہیں۔'' رسول اللہ ۖ اپنے اَکثر خطبوں اور وعظوں میں اِرشادفرمایا کرتے تھے : ''یاد رکھو ! جس میں اَمانت کا وصف نہیں، اُس میں اِیمان بھی نہیں، اور جس کو اپنے عہد اور وعدے کا پاس نہیں اُس کا دین میں کچھ حصہ نہیں۔'' ایک دُوسری حدیث میں ہے حضور ۖ نے فرمایا : ''منافق کی تین نشانیاں ہیں (١) جھوٹ بولنا (٢) اَمانت میں خیانت کرنا (٣) اور وعدہ پورا نہ کرنا۔''