مھرھا فلھا النفقة]٢١٣١[(٤) وان نشزت فلا نفقة لھا حتی تعود الی منزلہ]٢١٣٢[(٥) وان کانت صغیرة لا یُستمْتع بھا فلا نفقة لھا وان سلمت الیہ نفسھا۔
]٢١٣١[(٤)اور اگر نافرمانی کی تو اس کے لئے نفقہ نہیں ہے یہاں تک کہ گھر نہ لوٹ آئے۔
تشریح عورت نے نافرمانی کی اور گھر سے نکل گئی تو اب اس کے لئے نفقہ نہیں ہے جب تک کہ گھر واپس نہ آئے۔
وجہ نافرمان عورت کا احتباس نہیں رہا اور نفقہ احتباس کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس لئے اس کے لئے نفقہ نہیں ہوگا (٢) ایک عورت نے نافرمانی کی تو اس کو نفقہ نہیں ملا۔ حدیث میں ہے ۔عن فاطمة بنت قیس ان ابا عمرو بن الحفص طلقھا البتة وھو غائب فارسل الیھا وکیلہ بشعیر فتسخطتہ فقال واللہ مالک علینا من شیء فجائترسول اللہ فذکرت ذلک لہ فقال لھا لیس لک علیہ نفقة (الف) (ابو داؤد شریف ، باب فی نفقة المبتوتة ص ٣١٨ نمبر ٢٢٨٤) دوسرے اثر میں ہے۔عن سلیمان ابن یسار فی خروج فاطمة قال انما کان ذلک من سوء الخلق (ب) ابوداؤد شریف ، باب من انکر ذلک علی فاطمة بنت قیس ص ٣٢٠ نمبر ٢٢٩٤ مسلم شریف ، باب المطلقة البائن لا نفقة لھا ص ٤٨٣ نمبر ١٤٨٠) اس حدیث میں عورت نے شوہر کے وکیل کے ساتھ بد زبانی کی تو اس کو نفقہ نہیں دیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ نافرمان عورت کے لئے نفقہ نہیں ہے،ہاں! گھر واپس آجائے تو اس کو نفقہ ملے گا(٢) اثر میں ہے ۔ عن الشعبی انہ سئل عن امرأة خرجت من بیتھا عاصیة لزوجھا الھا نفقة ؟ قال لا وان مکثت عشرین سنة (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ٢٠٠ ماقالوا فی المرأة تخرج من بیتھا وھی عاصیة لزوجھا الھا النفقة ج رابع، ص ١٧٦، نمبر ١٩٠٢٣ مصنف عبد الرزاق ،نمبر ١٢٣٥٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ نافرمانی کرکے نکل جائے تو اس کے لئے نفقہ نہیں ہے۔
لغت نشزت : نافرمانی کرنا، تعود : واپس لوٹنا۔
]٢١٣٢[(٥)اور اگر اتنی چھوٹی ہو کہ اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ہو تو اس کے لئے نفقہ نہیں ہے اگر چہ اپنے آپ کو حوالے کردی ہو۔
تشریح مثلا چھ سات سال کی بچی ہو جس سے صحبت کرنا نا ممکن ہو ۔اگر اس نے اپنے آپ کو شوہر کے حوالے کر دیا پھر بھی اس کو نفقہ نہیں ملے گا۔ وجہ حوالے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو۔اور جب اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا ہو تو گویا کہ احتباس نہیں ہوا اس لئے اس کے لئے نفقہ نہیں ہوگا۔اثر میں ہے۔ عن عطاء فی الرجل یتزوج المرأة قال لا نفقة لھا حتی یدخل بھا (د) (مصنف ابن ابی شیبة ١٩٩ ماقالوا فی الرجل یتزوج المرأة فتطلب النفقة قبل ان یدخل بھا ھل لھا ذلک ؟ ج رابع، ص١٧٥، نمبر ١٩٠١٨ کتاب الآثار لامام محمد،باب نفقة التی لم یدخل بھا ص ١١٢،نمبر ٥١٩)
حاشیہ : (الف) عمرو بن حفص نے بائنہ طلاق دی اس حال میں کہ وہ غائب تھے،پس اس کے وکیل نے جو بھیجا تو فاطمہ بنت قیس غصہ ہو گئی تو عمر نے فرمایا خدا کی قسم تمہارا مجھ پر کوئی حق نہیں ہے،پھر وہ حضورۖ کے پاس آئی اور اس کا تذکرہ کیا تو آپۖ نے فرمایا تمہارا اس پر نفقہ نہیں ہے (ب) سلیمان بن یسار فاطمہ کے نکلنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ اس کی بداخلاقی کی وجہ سے ہوا (ج) حضرت شعبی سے عورت کے بارے میں پوچھا جو شوہر کی نافرمان ہو کر گھر سے نکل گئی ہوکیا اس کو نفقہ ملے گا ؟ فرمایا نہیں ! اگر چہ بیس سال تک وہ ٹھہری رہے(د) حضرت عطاء نے فرمایا کوئی آدمی شادی کرے تو اس وقت اس کے لئے نفقہ نہیں ہے جب تک صحبت نہ کر لے۔