فی منزلہ فعلیہ نفقتھا وکسوتھا وسکناھا]٢١٢٩[(٢) یعتبر ذلک بحالھما جمیعا موسرا کان الزوج او معسرا]٢١٣٠[(٣) فان امتنعت من تسلیم نفسھا حتی یعطیھا
ج رابع، ص ١٧٥، نمبر ١٩٠١٨) اس اثر سے معلوم ہوا کہ سپرد کرنے سے پہلے بیوی نفقہ کی حقدار نہیں ہے۔
]٢١٢٩[(٢)نفقے کا اعتبار کیا جائے گا دونوں کی حالتوں سے مالدار ہو شوہر یا تنگدست۔
تشریح حنفیہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ شوہرمالدار ہے تو اس کی رعایت کرتے ہوئے مالدار کا نفقہ لازم ہو بلکہ دونوں کے درمیان کا نفقہ لازم ہو گا۔مثلا شوہر مالدار ہے اور عورت غریب ہو تو مالدار سے کم اور غریب سے زیادہ کا نفقہ لازم ہوگا۔
وجہ حدیث میں ہے۔قالت ھند یا رسول اللہ ان ابا سفیان رجل شحیح فھل علی جناح ان آخذ من مالہ ما یکفینی وبنی ؟ قال خذی بالمعروف (الف) (بخاری شریف، باب وعلی الوارث مثل ذلک ص ٨٠٨ نمبر ٥٣٧٠) اس حدیث میں عورت کی حیثیت زیادہ تھی اور شوہر کم دے رہے تھے تو آپۖ نے معروف کے ساتھ زیادہ نفقہ لینے کی اجازت دی۔ جس سے معلوم ہوا کہ درمیانہ نفقہ لازم ہوگا۔
فائدہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ نفقہ میں مرد کی حالت کا اعتبار ہوگا ۔یعنی مرد مالدار ہے تو مالدار کا نفقہ لازم ہوگا اور غریب ہے تو غریب کا نفقہ لازم ہوگا۔
وجہ آیت میں ہے۔لینفق ذو سعة من سعتہ ومن قدر علیہ رزقہ فلینفق مما آتاہ اللہ لا یکلف اللہ ندسا الا ما آتاہا (ب) (آیت ٧ سورة اطلاق ٦٥ ) اس آیت میںشوہرکو مخاطب کرکے کہا کہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے۔اور یہ بھی کہا کہ جس پر تنگی ہوگئی ہو وہ اللہ کیمال میں سے خرچ کرے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ شوہر کی حالت کے اعتبار سے نفقہ لازم ہوگا۔عنجدہ معاویة القشیری قال اتیت رسول اللہ قال فقلت ما تقول فی نسائنا قال اطعموھن مما تأکلون واکسوھن مما تکتسون (ج) (ابو داؤد شریف ، باب فی حق المرأة علی زوھہا ص ٢٩٨ نمبر ٢١٤٤) اس حدیث میں ہے کہ جو کھاتے ہو وہ کھلاؤ جس سے معلوم ہوا کہ مردکا عتبار ہے۔
]٢١٣٠[(٣)اگر عورت باز رہے اپنے آپ کو سپرد کرنے سے یہاں تک کہ اس کو مہر دے تو اس کے لئے نفقہ ہے۔
تشریح عورت اپنے آپ کو اس لئے سپرد نہیں کر رہی ہے کہ مہر دے تب اپنے آپ کو سپرد کروںگی تو اس صورت میں عورت کو نفقہ ملے گا۔
وجہ اس لئے کہ عورت اپنے حق کی وجہ سے سپرد نہیں کر رہی ہے اس لئے وہ ناشزہ نہیں ہوئی اور گویا کہ سپرد کر دیا اس لئے اس کو نفقہ ملے گا۔
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے) جب تک اس سے صحبت نہ کر لے (الف) حضرت ہند نے فرمایا اے اللہ کے رسول حضرت ابو سفیان بخیل آدمی ہیں۔تو کیا مجھ پر کوئی گناہ ہے؟ کہ میں ان کے مال میں سے اتنا لے لوں جو مجھ کو اور میرے بچوں کو کافی ہو؟ حضورۖ نے فرمایا مناسب نفقہ لے لو(ب) گنجائش والوں کو گنجائش کے مطابق خرچ کرنا چاہئے اور جس کی روزی میں تنگی ہو تو اس کو اتنا خرچ کرنا چاہئے جتنا اس کو اللہ نے دیا ہے۔ اللہ نہیں مکلف بناتے ہیں کسی آدمی کو مگر جتنا اس کو اللہ نے دیا ہے (ج) معاویہ قشیری فرماتے ہیں کہ میں حضورۖ کے پاس آیا۔مئں نے کہا آپ ۖ عورتوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں ؟ فرمایا ان کو وہ کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور ان کو وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔