Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

173 - 448
قاذفھا او نفی نسب ولدھا وطالبتہ المرأة بموجب القذف فعلیہ اللعان]٢٠٦٠[(٢) فان 

لگائے تب لعان ہوگا۔اور مرد اور عورت اہل شہادت میں سے ہوں اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی ۖ قال اربع من النساء لا ملاعنة بینھن النصرانیة تحت المسلم والیھودیة تحت المسلم  والحرة تحت المملوک والمملوکة تحت الحر (الف) (ابن ماجہ شریف ، باب اللعان ص ٢٩٧ نمبر ٢٠٧١) اس حدیث میں نصرانیہ مسلمان کے تحت میں ہو تو لعان نہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ لعان کے لئے عورت کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔اسی طرح آزاد عورت مملوک کے ماتحت میں ہو تو لعان نہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ شوہر کا آزاد ہونا ضروری ہے۔اور فرمایا کہ باندی بیوی آزاد کے تحت میں ہو،جس کا مطلب یہ ہوا کہ بیوی کا آزاد ہونا ضروری ہے تب لعان ہوگا۔مصنف نے اسی کا ترجمہ کیا کہ بیوی اور شوہر اہل شہادت میں سے ہوں (٢) آیت میں ہے کہ فشھادة احدھم اربع شھادات باللہ ،جس سے معلوم ہوا کہ لعان مرد اور عورت دونوں کی جانب سے شہادت کے درجے میں ہے۔یعنی مرد گواہی دے رہا ہے کہ عورت نے زنا کرایا ہے۔اور عورت گواہی دے رہی ہے کہ میں نے زنا نہیں کرایا ہے۔جب ان دونوں کا لعان گواہی کے درجے میں ہے تو دونوں کا اہل شہادت ہونا ضروری ہے۔بیوی کے بچے کی نفی کرے جس سے لعان ہوتا ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن ابن عمر ان النبی ۖ لاعن بین رجل وامرأتہ فانتفی من ولدھا ففرق بینھما والحق الولد بالمرأة (ب) (بخاری شریف ، باب یلحق الولد بالملاعنة ص ٨٠١ نمبر ٥٣١٥ مسلم شریف ،کتاب اللعان ص ٤٨٨ نمبر ١٤٩٤) اس حدیث میں لڑکے کو باپ سے نفی کرکے ماں کے ساتھ ملحق کیا جس سے معلوم ہوا کہ بچے کے انکار کرنے کی وجہ سے لعان ہوا ہے۔اور عورت کے مطالبے پر لعان ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس کا حق ہے،اگر حق چھوڑ دے تو لعان نہیں ہوگا۔
]٢٠٦٠[(٢)اگر شوہر رک جائے لعان سے تو حاکم اس کو قید کرے یہاں تک کہ لعان کرے یا اپنے آپ کو جھٹلائے تاکہ اس پر حد لگائی جائے۔  
تشریح  شوہر نے تہمت لگائی پھر لعان کرنے کے لئے کہا تو لعان کرنے سے انکار کر دیا تو حاکم اس کو قید کرے گا تاکہ یا تو لعان کرے یا اپنے آپ کو جھٹلائے ۔اگر اپنے آپ کو جھٹلایا تو اس پر حد لگ جائے گی۔  
وجہ  عورت پر تہمت لگانے کے بعد لعان کروانا اس کا حق ہو جاتا ہے تاکہ اس کی عزت محفوظ رہے ،اور وہ نہیں کر رہا ہے تو حاکم اس کو قید کرے گا۔ اگر اپنے آپ کو جھٹلائے تو حد لازم ہوگی اس کی دلیل یہ حدیث ہے۔ان ھلال بن امیة قذف امرأتہ عند النبی ۖ بشریک بن سحماء فقال النبی ۖ البینةاو حد فی ظھرک (ج) (ابو داؤد شریف ، باب فی اللعان ص ٣١٣ نمبر ٢٢٥٤) اس حدیث سے 

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے)  بیویوں کو زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس اپنی ذات کے علاوہ کوئی گواہ نہ ہو الخ(الف) آپۖ نے فرمایا چار قسم کی عورتوں سے لعان نہیںہے۔ نصرانیہ مسلمان کی بیوی ہو۔ اور یہودیہ مسلمان کی بیوی ہو۔اور آزاد عورت غلام کی بیوی ہو۔ اور باندی آزاد کی بیوی ہو (ب) آپۖ نے لعان کرایا شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان ،اور اس کے بچے کی نفی کی اور دونوں کے درمیان تفریق کی اور بچے کو ماں کے ساتھ لاحق کر دیا(ج) حضرت ہلال بن امیہ نے حضورۖ کے پاس بیوی کو شریک بن سحماء کے ساتھ تہمت لگائی تو آپۖ نے فرمایا یا گواہی لاؤ یا تیری پیٹھ پر حد لگے گی۔

Flag Counter