Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 3 - یونیکوڈ

150 - 448
منہ بمال یخلعھا بہ فاذا فعل ذلک وقع بالخلع تطلیقة بائنة ولزمھا المال]٢٠٠٦[(٢) وان کان النشوز من قبلہ کرہ لہ ان یأخذ منھا عوضا]٢٠٠٧[(٣) وان کان النشوز من 

،اس کا مطلب یہ ہوا کہ خلع طلاق نہیں ہے(٢) اثر میں ہے۔ سال ابراھیم بن سعد ابن عباس عن امرأة طلقھا زوجھا تطلیقتین ثم اختلعت منہ ایتزوجھا ؟ قال ابن عباس ذکر اللہ عزوجل الطلاق اول الآیة وآخرھا والخلع بین ذلک فلیس الخلع بطلاق ینکحھا (الف) (سنن للبیہقی ، باب الخلع ھل ھو فسخ او طلاق ؟ ج سابع ،ص ٥١٧، نمبر ١٤٨٦٣ مصنف ابن ابی شیبة ١٠٦ من کان لایری الخلع طلاقا ج رابع، ص ١٢٣، نمبر ١٨٤٤٥) اس اثرسے معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں ہے۔
]٢٠٠٦[(٢) اگر نا فرمانی مرد کی جانب سے ہو تو اس کے لئے مکروہ ہے کہ عورت سے عوض لے۔  
تشریح  شرارت مرد کی ہے جس کی وجہ سے عورت خلع کرنے پر مجبور ہے تو مرد کو عوض لینا مکروہ ہے۔  
وجہ  اس لئے کہ مرد کی شرارت بھی ہے اور مجبور کرکے عوض بھی لے رہا ہے تویہ خوشی سے نہیں ہوا۔اور بغیر خوشی کے مال لینا اچھا نہیں ہے۔عن عمروبن یثربی قال شھدت رسول اللہ ۖ فی حجة الوداع بمنی فسمعتہ یقول لا یحل لامرء من مال اخیہ شیء الا ماطابت بہ نفسہ (ب) (دار قطنی ،کتاب البیوع ج ثالث ص ٢٢ نمبر ٢٨٦٠) اثر میں ہے۔ عن الزھری قال اذا افتدت امرأة من زوجھا واخرجت البینة ان النشوز کا ن من قبلہ وانہ کان یضرھا ویضارھا رد الیھا مالھا (ج) (مصنف عبد الرزاق ، باب یضارھا حتی تختلع منہ ج سادس ص ٥٠١ نمبر ١١٨٣٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر کی شرارت ہوتو رقم بیوی کو واپس کی جائے۔
]٢٠٠٧[(٣)اگر نافرمانی عورت کی جانب سے ہو تو مکروہ ہے شوہر کے لئے کہ اس سے زیادہ لے جتنا عورت کو دیا ہے،پس اگر ایسا کیا تو جائزہے قضاء ً   تشریح  اگر عورت کی شرارت ہو تو شوہر نے جتنا دیا ہے اتنا تو لے سکتا ہے اس سے زیادہ لینا مکروہ ہے۔تاہم اس سے زیادہ لے لیا تو قضاء کے طور پر جائز ہے۔  
وجہ  عن ابن عباس ان جمیلة بنت سلول اتت النبی ۖ فقالت ... لا اطیقہ بغیضا فقال لھا النبی ۖ اتردین علیہ حدیقتہ ؟ قالت نعم فامرہ رسول اللہ ان یأخذمنھا حدیقتہ ولا یزداد (د) (ابن ماجہ شریف ، باب المختلفة یأخذ ما اعطاھا ص ٢٩٤ نمبر ٢٠٥٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لینا مکروہ ہے۔اگر زیادہ دے پھر بھی جائز ہے اس کی دلیل یہ اثر ہے۔عن 

حاشیہ  :  (پچھلے صفحہ سے آگے) اس باغ کو واپس کرنا چاہتی ہے؟ کہاہاں ! پس باغ کو واپس کیا اور حضورۖ نے شوہر کو حکم دیا کہ عورت کو طلاق دے(الف) حضرت ابراہیم نے پوچھا ،ابن عباس نے فرمایا اللہ نے طلاق کو اول آیت میں ذکر کیا اور آخر آیت میں ۔اور خلع کو اس کے درمیان ،پس خلع طلاق نہیں ہے اس لئے نکاح کر سکتا ہے(ب) میں حجة الوداع میں منی میں حضورۖ کے پاس حاضر ہوا تو آپۖ کو کہتے ہوئے سنا،نہیں حلال ہے کسی آدمی کے لئے اپنے بھائی کا مال مگر خوش دلی سے (ج) حضرت زہری نے فرمایا اگر بیوی شوہر کو فدیہ دے اور بینہ پیش کردے کہ شرارت مرد کی جانب سے ہے ،اور وہ بیوی کو تکلیف دیتاتھا تو عورت کا مال واپس کر دیا جائے(د)جمیلہ بنت سلول حضورۖ کے پاس آئی اور کہنے لگی میں اب نفرت کی طاقت نہیں رکھتی۔آپۖ نے پوچھا کیا اس کا باغ اس کو واپس کر سکتی ہو،کہا ہاں ! پس آپۖ نے شوہر کو حکم دیا کہ اپنا باغ واپس لے لے لیکن زیادہ نہ لے۔ 

Flag Counter