Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 3

651 - 689
٦  وجہ قولہما وہو الاستحسان ان سفرہ لم یبطل لقولہ تعالی ومن یخرج من بیتہ مہاجرًا الی اﷲ ورسولہ الایة وقال علیہ السلام من مات فی طریق الحج کتب لہ حجة مبرورة فی کل سنة واذا لم یبطل سفرہ اعتبرت الوصیة من ذلک المکان 

ہیں صرف تین عمل باقی رہتے ہیں ، صدقہ جاریہ ،وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جا تا ہو ، اور نیک اولاد جو دعا کرے ، اور حج کر نا ان تینوں میں سے نہیں ہے ، اس لئے یہ بھی باطل ہو جائے گا ، اور جب باطل ہو گیا تو وطن سے حج کرائے ۔
وجہ :  (١)  صاحب ھدایہ کی حدیث  یہ ہے ۔عن ابی ھریرة أن رسول اللہ قال اذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاثة الا من صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعولہ ۔( مسلم شریف ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ ، ص ٧١٦، نمبر ١٦٣١ ٤٢٢٣ ابوداود شریف ، باب ما جاء فی الصدقة عن المیت، ص ٤١٩، نمبر٢٨٨٠ ) اس حدیث میں ہے کہ مرنے کے بعد عمل منقطع ہو  جاتا ہے ، صرف تین عمل کا ثواب باقی رہتا ہے ۔
ترجمہ:   ٦  صاحبین کے قول کی وجہ یہ ہے اور وہی احسان کا تقاضا ہے کہ اس کا سفر باطل نہیں ہوا ۔ اللہ تعالی کے قول کی وجہ سے جو اللہ اور رسول کے لئے اپنے گھر سے ہجرت کے لئے نکلے اور مر گیا تو اس کا اجر ثابت ہو گیا ، اور حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے ، کہ کوئی حج کے راستے میں مر جائے تو ہر سال اس کے لئے حج مبرور لکھا جا تا ہے ، اور جب سفر باطل نہیں ہوا تو اسی مقام سے وصیت کا اعتبار کیا جائے گا ۔ 
تشریح :  صاحبین  کی رائے یہ ہے اور استحسان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جہاں تک سفر کر چکا ہے وہ باطل نہیں ہوا ہے اور جب باطل نہیں ہوا تو وہیں سے حج کرا جائے جہاں مامور مرا ہے ، مثال مذکور میں جدہ سے ۔ کیونکہ آیت میں ہے کہ کوئی ہجرت کے لئے نکلے اور مر جائے تو اس کا اجر ثابت ہو چکا ہے اور حدیث میں ہے کہ جو حج کے لئے یا عمرہ کے لئے نکلے تو قیامت تک حاجی کا اجر لکھا جائے گا ، اور جب اجر لکھا گیا تو سفر باطل نہیں ہوا ، اور پہلا سفر باطل نہیںہوا تووہیں سے حج کرا جائے ۔ 
وجہ :  (١) صاحب ھدایہ کی آیت یہ ہے۔ و من یخرج من بیتہ مھاجرا الی اللہ و رسولہ ثم یدرکہ الموت فقد وقع أجرہ علی اللہ۔( آیت ١٠٠، سورة النساء ٤)  اس آیت میں ہے کہ اللہ کے راستے میں مر جائے تو وہاں تک اس کا اجر ثابت ہو جا تا ہے ۔صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے۔  عن ابی ھریرة قال رسول اللہ  ۖ من خرج حاجا أو معتمرا أو غازیا ثم مات فی طریقہ کتب اللہ لہ اجر الغازی و الحاج و المعتمر الی یوم القیامة ۔ ( سنن بیہقی شعب الایمان، الخامس و العشرون من شعب الایمان ، باب فضل الحج و العمرة ،ج ثالث ، ص ٤٧٤، نمبر ٤١٠٠) اس حدیث میں ہے کہ کوئی حج کے لئے نکلے اور راستے میں مر جائے تو قیامت تک اس کا اجر ثابت ہے ۔ 

Flag Counter