Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 3

145 - 689
 (فصل فیما یوجبہ علی نفسہ )
(٩٩١) فیما یوجبہ علیٰ نفسہ واذا قال ﷲ علیَّ صوم یوم النحر افطر وقضی )  ١ فہٰذا النذر صحیح عندنا 

(فصل فیما یوجبہ علی نفسہ )
نوٹ :  اس فصل میں یہ بتا رہے ہیں کہ روزے کے سلسلے میں نذر مانے یا قسم کھا ئے تو اس کا کیا حکم ہے اس بارے میںیہ فصل ہے۔اس کے ثبوت کے لئے یہ آیتیں ہیں (١) ثم لیقضوا تفثھم و لیوفوا نذورھم ۔ (آیت٢٩، سورة الحج ٢٢)  اس آیت میں ہے کہ اپنی نذر پوری کرے ۔(٢) دوسری آیت میں ہے ۔  واوفوا بعھد اللہ اذا عٰھدتم ولا تنقصوا الایمان بعد توکیدھا۔ (آیت ٩١ سورة النحل ١٦)اس آیت میں ہے کہ عہد کو پورا کرے اور اسی کے تحت میں نذر بھی آتی ہے (٣)والذین یوفون بعھد اللہ ولا ینقضون المیثاق۔ (آیت ٢٠ سورة الرعد ١٣) اس آیت میں بھی ہے کہ عہد پورا کرے جس کے تحت میں نذر بھی آتی ہے ۔
ترجمہ:   (٩٩١) اگر کہا کہ مجھ پر اللہ تعالی کے واسطے عید الاضحے کے دن کا روزہ ہے تو روزہ نہ رکھے اور بعد میںقضاء کرے 
 ترجمہ:   ١  پس یہ نذر ہمارے نزدیک صحیح ہے۔
تشریح :  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ معصیت پر نذر مانے تو نذر منعقد ہو گی یا نہیں ؟ تو امام ابو حنیفہ  کی رائے یہ ہے کہ نذر تو منعقد ہو جائے گی لیکن اس کام کو مؤخر کرے اور قضاء کرے ، اور اما م شافعی  کا اصول یہ ہے کہ وہ نذر ہی منعقد نہیںہو گی، کیونکہ معصیت اور گناہ کی نذر ہے ۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے یہ نذر مانی کہ مجھ پر بقرعید کے دن کا روزہ ہے نذر منعقد ہو گئی ، لیکن اس دن روزہ نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضاء کرے ۔
وجہ : (١)اس دن اس لئے روزہ نہ رکھے کہ حضور ۖ نے اس دن روزہ رکھنے سے منع فر ما یا ہے کہ اس دن اللہ تعالی کے یہاں دعوت ہو تی ہے ، حدیث یہ ہے ۔  شھدت العید مع عمر بن الخطاب فقال ھذان یومان نھی رسول اللہ ۖ عن صیامھما یوم فطرکم من صیامکم و الیوم الآخر تأکلون فیہ من نسککم ۔(بخاری شریف ، باب صوم یوم الفطر ، ص ٣٢٠، نمبر ١٩٩٠ مسلم شریف ، باب تحریم صوم یومی العیدین ، ص ٤٦٤، نمبر ١١٣٧ ٢٦٧١) اس حدیث میں ہے کہ عید کے دن اور بقرعید کے دن روزہ نہیں رکھنا چاہئے ۔(٢) اس حدیث میں ہے کہ نذر تو ہو جائے گی لیکن بعد میں اس کی قضاء کرے ، حدیث یہ ہے۔جاء رجل الی ابن عمر  فقال رجل نذر أن یصوم یوما قال اظنہ قال الاثنین فوافق ذالک یوم عید فقال 

Flag Counter