Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 3

649 - 689
 ٣  وعند ابی یوسف یحج عنہ بما بقی من الثلث الاوّل لانہ ہو المحل لنفاذ الوصیة  ٤  ولابی حنیفة ان قسمة الوصی وعزلہ المال لا یصح الا بالتسلیم الی الوجہ الذی سماہ الموصی لانہ لا خصم لہ لیقبض ولم یوجد فصار کما اذا ہلک قبل الافراز والعزل فیحج بثلث مابقی 

گی ۔ مثال مذکور میں مامور کے پاس دو سو درہم بچے تھے ، اسی سے حج کرا یا جائے گا ، اور اس سے نہ ہو سکے تو وصیت باطل ہو جائے گی۔ 
وجہ :  اس کی وجہ یہ بتا تے ہیں کہ اگر میت خود کسی کو حج کے لئے متعین کر تا اور اس کو مثلا ڈیڑھ ہزار درہم دیتا اور کہتا کہ میری جانب سے حج کر لو ، اور وہ درہم چوری ہو جاتے ، تو مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ اس میں سے بچا ہے اس سے حج ہو سکتا ہو تو کرواتا ، ورنہ وصیت باطل ہو جاتی ، اسی طرح میت کے وصی نے کسی کو بھیجا اور درمیان میں مال چوری ہو گیا تو جتنا مامور کے پاس بچا ہے اسی سے حج کرائے گا ، کیونکہ وصی کا متعین کرنا میت] موصی[ کے متعین کر نے کی طرح ہے۔    
ترجمہ:   ٣  امام ابو یوسف  کے نزدیک پہلے کے تہائی مال میںسے جو باقی رہا ہے اس میں حج کراجائے گا ، اس لئے کے وصیت کے نافذ ہو نے کا محل وہی مال ہے ۔ 
تشریح :  امام ابو یوسف  فر ما تے ہیں کہ میت کا جتنا مال تھا اس میں سے پہلی مرتبہ جو تہائی کیا تھا ، مثلا چھ ہزار درہم تھا اور اس کی تہائی دو ہزار درہم تھے ، تو اسء دو ہزار میں سے جو باقی ہے اسی سے حج ہو سکتا ہو تو اس سے حج کرا یا جائے گا ، اور نہیںہو سکتا ہو تو وصیت باطل ہو جائے گی ، مثال مذکور میں چھ ہزار کی تہائی دو ہزار درہم تھے ، اس میں سے ڈیڑھ ہزار مامور کو دیا اور پانچ سو درہم باقی رہے اسی پانچ سو میں حج کرا یا جائے گا ، اور اس سے حج نہ ہو سکتا ہو تو وصیت باطل ہو جائے گی ۔
وجہ :  انکی دلیل یہ ہے کہ پہلی مر تبہ جو مال کی تہائی نکالی اسی میں وصیت نافذ ہو تی ہے ، اس لئے اسی میں حج کرا یا جا سکتا ہے ، میت کے مال میں بار بار تہائی نہیں نکالی جائے گی ، ورنہ ورثہ کے لئے کیا بچے گا !۔       
ترجمہ :  ٤  امام ابو حنیفہ  کی دلیل یہ ہے کہ وصیت کر نے والے نے جو مقام متعین کیا ہے اس میں خرچ کر نے کے بعد ہی مال کو الگ کر نا اور سپرد کر نا صحیح ہو گا ، اس لئے کہ یہاں کوئی مقابل نہیں ہے جو وصیت کے مال پر قبضہ کرے ، اور اس مقام میں خرچ کر نا پا یا نہیں گیا ، تو ایسا ہو گیا کہ الگ کر نے سے پہلے ہی مامور ہلاک ہو گیا ، اس لئے جو مال باقی رہ گیا ہے دو بارہ اس کی تہائی سے حج کرا یا جائے ۔ 
تشریح :  امام ابو حنیفہ  کی رائے ہے کہ میت کا مال جو باقی ہے مثلا چھ ہزار میں ڈیڑھ ہزار مامور کو حج کے لئے دیا تھا ، اور ساڑھے چار ہزار باقی تھا ، تو اس باقی کی تہائی نکالی جائے ،مثلا ساڑھے چار ہزار کی تہائی ڈیڑھ ہزار ہوگی ، اس ڈیڑھ ہزار میں سے دو بارہ حج 

Flag Counter