Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 3

647 - 689
٢  بخلاف ما اذا فاتہ الحج حیث لا یضمن النفقہ لانہ ما فاتہ باختیارہ  ٣  اما اذا جامع بعد الوقوف لا یفسد حجہ ولا یضمن النفقة لحصول مقصود الاٰمر وعلیہ الدم فی مالہ لما بینا وکذلک سائر دماء الکفارات علی الحاج لما قلنا   (١٤٤٦) ومن اوصیٰ بان یحجّ عنہ فاحجوا عنہ رجلاً فلما بلغ الکوفة مات او سرقت نفقتہ  وقد انفق النصف یحج عن المیت من منزلہ بثلث ما بقی )    ١  وہذا عند ابی حنیفة وقالا یحج عنہ من حیث مات الاول فالکلام ہٰہنا فی اعتبار الثلث وفی مکان الحج امّا الاوّل فالمذکور قول ابی حنیفة 

آمر کے لئے نفقے کا ذمہ دار نہیں ، لیکن اس جنایت کا دم مامور پر لازم ہو گا ، اس لئے کہ اسکی اپنی غلطی سے یہ دم لازم ہوا ہے ۔
ترجمہ:   ٢  بخلاف جبکہ خود بخود حج فوت ہواہو تو  نفقے کا ضامن نہیں ہو گا ، اس لئے کہ اس کے اختیار سے فوت نہیں ہے ۔ 
تشریح : یہ دوسری صورت ہے کہ ،مامور قدرتی رکاوٹوں کی وجہ سے وقوف عرفہ تک نہیں پہونچ سکا جسکی وجہ سے حج فوت ہو گیا تو اس صورت میں مامور کی غلطی نہیں ہے ، قدرتی مصیبت ہے اس لئے مامور آمر کے لئے نفقے کا ضامن نہیں ہو گا ۔
 ترجمہ :  ٣  بہر حال اگر وقوف عرفہ کے بعد جماع کیا تو اس کا حج فاسد نہیں ہوا ، اس لئے نفقے کا ضامن نہیں ہو گا ، آمر کے مقصود کے حاصل ہو نے کی وجہ سے ، اور دم جنایت مامور کے مال میں ہو گا ، اس دلیل کی وجہ سے جو میں نے بیان کیا ، اور ایسے ہی تمام کفاروں کے دم حاجی پر ہو نگے ، اس  دلیل کی بنا پر جو میں نے کہا ۔ 
تشریح :  یہ تیسری صورت ہے کہ وقوف عرفہ کے بعد جماع کیا تو حج ہو گیا اس لئے آمر کے نفقے کا ضامن نہیںہو گا ، کیونکہ آمر کا مقصود پورا ہو گیا ، لیکن جماع جنایت کا دم بدنہ لا مامور پر لازم ہو گا ، کیونکہ اسی کی غلطی ہے ، اسی طرح جتنے کفارات ہیں وہ سب بھی مامور پر لازم ہو نگے ، کیونکہ اسی کی غلطی سے لازم ہو ئے ہیں ۔
ترجمہ  :( ١٤٤٦) کسی نے وصیت کی کہ اس کی جانب سے حج کرائے پس ورثہ نے میت کی طرف سے ایک آدمی کو حج کرادیا ، پس جب نائب کوفہ تک پہونچا تو مر گیا ، یا اس کا نفقہ چوری ہو گیا ، حالانکہ وہ آدھا نفقہ خرچ کر چکا تھا ، تو میت کی طرف سے اس کے گھر سے ما بقی مال کی تہائی سے حج کرایا جائے ۔  
ترجمہ :  ١   اور یہ امام ابو حنیفہ  کے نزدیک ہے ۔اور صاحبین  نے فر ما یا کہ جہاں مرا ہے وہاں سے حج کرایا جائے ، پس کلام یہاں اس مسئلہ میں تہائی کے اعتبار ہو نے میں اور حج کی جگہ میں ہے ۔بہرحال پہلا قول امام ابو حنیفہ  کا ہے ۔  
تشریح :  کسی نے مرتے وقت یہ وصیت کی کہ میری جانب سے حج کرا یا جائے ، پس ورثہ نے آیک آدمی کو حج کے لئے بھیجا ، وہ آدھا راستہ مثلا ہندوستان سے جدہ پہونچا کہ وہ بھی مر گیا ، یا اس کا سامان چوری ہو گیا ۔ اب سوال دوہیں۔

Flag Counter