Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 3

520 - 689
   ١١  او لما فیہ من التعمیم وفی ضدّہ التخصیص ١٢   والمرادبالنصّ واﷲاعلم فجزاء قیمة ما قتل من النعم الوحش واسم النعم یطلق علی الوحشی والاہلی کذاقالہ ابوعبیدوالاصمعی١٣   والمرادبماروی التقدیربہ دون ایجاب المعین

طور پر ہم نے مثل معنوی یعنی قیمت کر لیا ، کہ شکار جب بھی قتل ہو تو اس کی قیمت لازم ہو گی ، اور اس سے ہدی کا، یا فدیہ کا، یا روزے کا اندازہ لگا یا جائے گا ۔  
ترجمہ:   ١١  یا  اس لئے کہ معنوی مثل لینے میں عموم ہے ، اور اور اس کے خلاف صوری مثل لینے میں تخصیص ہے ۔ 
تشریح :  ]٣[ یہ تیسری دلیل ہے کہ اگر آیت میں مثل سے مراد صوری مثل لیں تو یہ صرف اس صورت کے لئے خاص ہو گا جس کا صوری مثل ہے ، لیکن جن شکاروں کا صوری مثل نہیں ہے ، مثلا گو ریا تو اس کے لئے صوری مثل لے ہی نہیں سکتے ، اس کی قیمت ہی لگانی پڑے گی ، او را گر آیت میں مثل سے مراد مثل معنوی لیا جائے یعنی  ہر جگہ شکار کی قیمت لگائی جائے تو جنکا مثل ہے اس کے لئے بھی شا مل ہو گا اور جنکا مثل نہیں ہے انکو بھی شامل ہو گا تو یہ عام ہو جائے گا، اس لئے مثل معنوی لینا بہتر ہے ۔  
ترجمہ:  ١٢  اور آیت کا ترجمہ ]واللہ اعلم [ یہ ہے کہ بدلہ اس وحشی جانور کے قتل کی قیمت ہے ۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ نعم کا اطلاق وحشی جانور پر بھی ہو تا ہے اور پالتو جانور پر بھی ہو تا ہے ، جیسا کہ حضرت ابو عبید اور ا صمعی نے کہا ہے ۔ 
تشریح :  یہ امام محمد کے استدلال کا جواب ہے ، انہوں نے آیت ۔ فجزاء مثل ما قتل من النعم، کا ترجمہ یوں کیا تھا کہ قتل کئے ہوئے جانور کا بدلہ نعم یعنی پالتو جانور سے دو ۔ اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ آیت کا ترجمہ یوں ہے کہ وحشی جانور جو قتل ہوا ہے اس کا بدلہ اس کی قیمت لگا کر دو ،اس صورت میں من النعم سے مقتول جانور ]شکار [مراد ہو گا ۔ اور اس کی وجہ یہ فر ما تے ہیں کہ نعم پالتو جانور کو بھی کہتے ہیں اور وحشی جانور کو بھی کہتے ہیں ، جیسا کہ لغت کے ما ہر ابو عبید  اور اصمعی  نے فر ما یا ہے ، اور جب نعم وحشی جانور پر بو لا جاتا ہے تو آیت میں من النعم سے مراد وحشی شکار ہو گا ، کہ جس وحشی شکار کو قتل کیا اس کی جزاء قیمت سے دو۔۔ النص : سے مراد آیت ہے ۔ 
ترجمہ :  ١٣  اور جو روایت بیان کی ہے اس کی مراد اندازہ کر نا ہے متعین کر کے واجب کر نا نہیں ہے ۔ 
تشریح :  یہ بھی امام محمد  کو جواب ہے ، انہوں نے حضور علیہ السلام کی حدیث استدلال میں پیش کی تھی۔ عن جابر بن عبد اللہ قال سألت رسول اللہ  ۖ عن الضبع فقال ھو صید ، و یجعل فیہ کبش اذا صادہ المحرم ۔ ( ابو داود شریف ، باب فی أکل الضبع ، ص ٥٤٢، نمبر ٣٨٠١) کہ بجو کے بدلے میں مینڈھا واجب کیا جائے ، اور اسی طرح بہت سے صحابہ کا فتوی نقل کیا تھا کہ شکار کے بدلے میں پالتو جانور متعین فر ما یا ، تو اس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ ان احادیث میں ایک اندازہ بتا یا ہے کہ اس  شکار کی قیمت کا اندازہ اس پالتو جانور  کی قیمت سے لگاؤ ، اس حدیث یا آثار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہی پالتو جانور متعین ہے ، 

Flag Counter