٢خلافا لزفر والشافعی ہما یقولان انہ نذر بما ہو معصےة لو رود النہی عن صوم ہٰذہ الایام
٣ ولنا انہ نذر بصوم مشروع والنہی لغیرہ وہو ترک اجابة دعوة اﷲ تعالیٰ فیصح نذرہ لکنہ یفطر احترازًا عن المعصےة المجاورة ثم یقضی اسقاطا للواجب وان صام فیہ یخرج عن العہدة لانہ ادّاہ
ابن عمر أمر اللہ بوفاء النذر و نھی النبی ۖ عن صوم ھذا الیوم (بخاری شریف ، باب صوم یوم النحر، ص ٣٢٠، نمبر ١٩٩٣) اس اثر میں ہے کہ نذر پوری کرنا چاہئے لیکن عید کے چونکہ حضورۖ نے روزہ سے رکھنے سے منع فر ما یا ہے اس لئے کسی اور دن اس کو قضاء کرے ۔ (٣)دلیل عقلی یہ ہے کہ روزہ بنفسہ عبادت کی چیز ہے اس لئے عید الفطر یا بقرعید کے دن اس کی نذر ما ننا اچھی بات ہے لیکن اس دن اللہ تعالی کی طرف سے دعوت ہو تی ہے اس لئے اس دن روزہ رکھنا معصیت ہے تو یہ نھی لغیرہ ہوا اسلئے نذر منعقد ہو جائے گی البتہ اس کی قضاء دوسرے دن کرے ۔
ترجمہ: ٢ برخلاف امام زفر اور امام شافعی کے ، وہ دو نوں حضرات فر ما تے ہیں کہ یہ ایسی نذر ہے جس میں معصیت ہے اس لئے کہ ان دنوں میں روزہ رکھنے سے نہی وارد ہوئی ہے ۔
تشریح : حضرت امام زفر اور امام شافعی فر ما تے ہیں کہ ان دنوں میں حضور ۖ نے روزہ رکھنے سے منع فر ما یا ہے اس لئے اس دن کے روزہ رکھنے کی نذر ما نے تو نذر ہی منعقد نہیں ہو گی اس لئے بعد میں اس کی قضاء کر نے کی ضرورت نہیں ہے ۔
وجہ : (١ انکی دلیل یہ حدیث ہے ۔سمع عبد اللہ بن عمر سئل عن رجل نذر أن لا یأتی علیہ یوم الا صام فوافق یوم أضحی أو یوم فطر فقال لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة لم یکن یصوم یوم الاضحی و الفطر ولا نریٰ صیامھما۔ (بخاری شریف ، باب من نذر أن یصوم أیاما فوافق النحر أو الفطر ، ص ١١٥٧، نمبر ٦٧٠٥) اس حدیث میں ہے کہ عید اور بقرعید کے دن روزہ نہ رکھے ، اس لئے نذر ہی واقع نہیں ہو گی ۔ ۔ مو سوعہ میں ہے کہ بعد میں ان روزوں کی قضاء کرے ، مو سوعہ کی عبارت یہ ہے ،قال الشافعی : من نذر أن یصوم سنة صامھا و افطر الایام التی نھی عن صومھا وھی یوم الفطر و الاضحیٰ و ایام منی و قضاھا ۔ ( موسوعة امام شافعی ، باب أحکام من افطر فی رمضان ، ج رابع ، ص ٣٧٧، نمبر ٥٠٤٤) اس عبارت میں ہے کہ ایام منہیہ کی قضاء کرے ۔
ترجمہ: ٣ ہماری دلیل یہ ہے کہ مشروع روزے کی نذر مانی ہے ]اس لئے صحیح ہونی چاہئے [اور روزے سے روکنا کسی اور وجہ سے ہے اور وہ ہے اللہ کی دعوت کو قبول کر نے کو چھوڑنا ، اس لئے اس کی نذر صحیح ہو گی لیکن ملی ہو ئی معصیت سے بچنے کے لئے روزہ نہ رکھے ، پھر واجب کو ساقط کر نے کے لئے قضاء کرے ، لیکن اگر ان دو نوں دنوں میں روزہ رکھ ہی لیا ذمہ داری سے نکل جائے گا اس لئے کہ جیسا لازم کیا ویسا ہی ادا کر دیا ۔